تحفہ

( تُحْفَہ )
{ تُح + فَہ }
( عربی )

تفصیلات


تحف  تُحْفَہ

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مجرد کے باب سے مصدر ہے اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٠٧ء کو ولی کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ
واحد غیر ندائی   : تُحْفے [تُح + فے]
جمع   : تُحْفے [تُح + فے]
جمع استثنائی   : تَحائِف [تحا + اِف]
جمع غیر ندائی   : تُحْفوں [تُح + فوں (و مجہول)]
١ - ہدیہ، سوغات۔
'یہ حقیر تحفہ آپ کے قابل نہیں لیکن آپ قبول فرما لیجیے۔"      ( ١٩٣٦ء، گرداب حیات، ٧٥ )
٢ - عجیب و غریب، اچھا، نفیس، سب سے الگ، عمدہ۔
'زیورات و پارچہ جات تحفہ تحفہ اور محل سرائے مکلف برائے بود و باش حوالے کئے۔"      ( ١٩١٢ء، محل خانۂ شاہی، ٤٦ )
٣ - نذر، پیشکش۔
'وزیراعظم کے ذوق و شوق صرف کچھ تحفے تحائف لینے کے لیے بہت تھے۔"      ( ١٨٩١ء، قصۂ حاجی بابا اصفہانی، ٥٦٣ )
  • a gratuitous gift
  • a present;  rarity
  • curiosity
  • a choice or pleasing thing;  the best or beauty of a thing