پلید

( پَلِید )
{ پَلِید }
( فارسی )

تفصیلات


پلید  پَلِید

فارسی سے اردو میں داخل ہوا اور بطور صفت مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٨٨ء کو "ہدایاتِ ہندی (قلمی نسخہ)" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع غیر ندائی   : پَلِیدوں [پَلی + دوں (و مجہول)]
١ - ناپاک، جوظاہر یا باطن کے اعتبار سے (عارضی یا مستقل) نجس ہو۔
"پلید، جناب حضرت جل شاہ کی درگاہ کی طرف رُخ نہیں کرتا۔"      ( ١٩٢٤ء، تذکرۃ الاولیا، ٢٣٧ )
٢ - حرام۔
"پلید یعنی حرام طریقوں سے کمائی ہوئی چیز کا یا ردی اور گھٹیا چیز دینے کا ارادہ اور نیت بھی مت کیا کرو۔"      ( ١٩٦٦ء، روزنامہ جنگ، کراچی، ١٧ اپریل، ٣ )
٣ - گندا، غلیظ، گندگی میں آلودہ، میلا کُچیلا۔
"بھلا مجھے کیا معلوم تھا کہ تمہارا انوکھا بچہ بندروں جیسی گندی اور پلید شئے کے ساتھ جا کر کھیلے گا۔"      ( ١٩٠١ء، جنگل میں منگل، ٨٢ )
٤ - بُرا، خراب، قابلِ نفرت، لائق اجتناب۔
 گئی عُمر اور وہی چال پر رہی کچھ نظر نہ حال پر مگر اب جمی یہ خیال پر کہ وہ کار سخت پلید تھا      ( ١٨٦٤ء، دیوانِ حافظ ہندی، ٨ )
٥ - [ مجازا ]  بدنفس، بدذات، شریر، موذی، خبیث، ظالم (اکثر بطور دشنام)
"اس زن فاحشہ اور غلام پلید کو کھڑے چنوا دوں تو روا ہے۔"      ( ١٩٠١ء، الف لیلہ، سرشار، ١١ )