غلیظ

( غَلِیظ )
{ غَلِیظ }
( عربی )

تفصیلات


غلظ  غَلِیظ

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق کلمہ ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور صفت اور شاذ بطور اسم استعمالہ وتا ہے سب سے پہلے ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت
١ - غلاظت، فُضْلَہ، پاخانہ۔
"انگلیوں سے جلے ہوئے غلیظ کو صاف کیا۔"      ( ١٩٨١ء، قطب نما، ٢٥ )
صفت ذاتی
١ - گاڑھا، غیر سیال (رقیق کی ضد)
"مثل شربت کے غلیط القوام ہو جاوے۔"      ( ١٩٣٠ء، جامع الغنون، ١١١:٢ )
٢ - موٹا، دبیز، دل دار، گہرا (کمیت و کیفیت کے اظہار کے لیے)
"منہ سے غلیط دھواں نکلا اور گویا کمر کا مفلوج گریہ چٹاخ سے بولا۔"      ( ١٩٨٦ء، جوالامکھ، ٦٦ )
٣ - کثیف، میلا، گدلا۔
 بوجھل اور غلیظ رطوبت بھری فضا چاروں طرف محیط ہے اک سخت گیر جال      ( ١٩٦٦ء، چراغ اور کنول، ١٢٤ )
٤ - سخت، شدید، بھاری۔
"آج تم نے کوئی غلیظ غذائیت زیادہ کھائی ہے۔"      ( ١٩٤٣ء، تاریخ الحکما، ١٧٤ )
٥ - گندہ، نجس، ناپاک۔
"میں ان لطیفوں کو دہرا کر کہانی کو غلیظ نہیں کرنا چاہتا۔"      ( میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا، ٢١٠ )