اسم مجرد ( مؤنث - واحد )
١ - حمایت، سہارا، پشتی، پُشت پناہی، حفاظت۔
"مجکو خدا کی حفاظت بس ہے، میں تمہاری پناہ سے استعفا دیتا ہوں۔"
( ١٩١١ء، سیرۃ النبیۖ، ٢٢:١ )
٢ - بچنے کا ٹھکانا، امن کی جگہ، مامن۔
کہیں تو پاؤں کو پھیلاکے سوئے راحت کہیں تو شاد کو اے زندگی پناہ مِلے
( ١٩٢٧ء، شاد، میخانۂ الہام، ٣٠٢ )
٣ - بچاؤ کا ذریعہ، آڑ، اوٹ (جو کسی صدمے سے بچنے کے لئے ہو)۔
"امیر نے سپر کو چہرے کی پناہ کیا۔"
( ١٩٠٠ء، طلسمِ خیال سکندری، ٣٦:٢ )
٤ - بچاؤ، دوری (کسی صدمے یا ضرر سے)، امان۔
"اگریہ کام اچھی طرح کیا جائے تو آئندہ کے بہت سے . اخراجات سے پناہ رہے۔"
( ١٨٨٩ء، رسالہ و حسن، ٢، ٨٩:٨ )
٥ - [ مجازا ] سایہ، ظِل، سرن، سرپرستی، ذمّہ داری۔
"زندگی معرفتِ الہٰی کی پناہ میں محفوظ رہ سکتی ہے۔"
( ١٩١٠ء، سی پارۂ دل، ١٧٢:١ )
٦ - [ سیف بازی ] تلوار کے قبضے پر انگلیوں کے بچاو کی آڑ۔ (اصطلاحاتِ پیشہ وراں، 45:8)، (مجازاً) تلوار کا قبضہ۔
"خداوندا تو میری قوت و پناہ ہے۔"
( ١٩٣٨ء، تاریخِ فیروزشاہی، ٤٤ )
٧ - (تراکیبِ فارسی میں جزو دوم کے طور پر مستعمل)، (کنایۃً) حفاظت یا طرف داری یا ملجا و ماوا۔
ملتے تو پھر چلے ہو مشیخت پناہ سے قشقہ کا دیکھو آج جبیں پر نشاں نہ ہو
( ١٩٢٣ء، کلامِ جوہر، ٧٨ )
٨ - کسی چیز یا بات کی کثرت یا شدت ظاہر کرنے کے موقع پر تنہا یا لگے بندھے فقروں میں مستعمل۔
"تاج محل: پناہ! حضرت نے تو اکٹھا اتنے سوال کر دیے کہ مجھے یاد بھی نہیں رہ سکتے۔"
( ١٩٢٥ء، مینا بازار، شرر، ٥٣٣ )