تشخیص

( تَشْخِیص )
{ تَش + خِیص }
( عربی )

تفصیلات


شحص  تَشْخِیص

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب تفعیل سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨٦٥ء کو "رسالہ علم فلاحت" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - پہچان، پرکھ، جانچ۔
"اچھے استاد میں صحیح مشاہدے کی صفت بھی ہونی چاہیے کہ اس کے بغیر وہ اپنے شاگرد کی صحیح تشخیص نہیں کر سکتا۔"      ( ١٩٣٦ء، تعلیمی خطبات، ١٦٧ )
٢ - تمیز، فرق۔
 ہم بھی خلاف وضع گوارا کریں اگر کچھ ہم میں اور غیر میں تشخیص واں نہیں    ( ١٩١١ء، ظہیر، دیوان، ١، ١١٥ )
٣ - تصفیہ، تعین۔
"اپنی نوعیت کا یہ وہ معاہدہ ہے جس میں موت واقع ہونے پر پہلے سے ادا شدنی رقم کی تشخیص کر دی جاتی ہے۔"    ( ١٩٦٤ء، بیمۂ حیات، ٢٦ )
٤ - ثبوت۔
"انھیں دونوں کے سوا اور کوئی تیسرا شخص اس بات کی تشخیص نہیں کر سکتا۔"      ( ١٩٠١ء، حیات جاوید، ١٥٤:٢ )
٥ - کھوج، تحقیق، ڈھونڈ نکالنا۔
"پرنسز باندا کی جان اسی راز کی بدولت گھل گھل کے بری طرح تمام ہوئی جس کا باعث دل شکستگی کے سوا کچھ نہ تشخیص ہو سکا۔"      ( ١٩٣٤ء، خونی راز، ١٢٢ )
٦ - مالگزاری یا جمع یا لگان وغیرہ مقرر و متعین کرنا۔
"ہر موضوع کی بذات خود یہ مواجہہ رعایا فصل کی جانچ پڑتال کر کے تشخیص جمع کرتے تھے۔"      ( ١٩٣٤ء، حیات محسن، ٨ )
٧ - [ طب ]  مرض کی پہچان، شناخت۔
"دونوں طبیبوں کی تشخیص کا خلاصہ دل نشیں ہو چکا تھا۔"      ( ١٩٣١ء، رسوا، اختری بیگم، ٣٧ )
٨ - تجویز، تدبیر، حساب۔
"آپ اپنا اپنا انکم ٹیکس خود تشخیص کر کے آمدنی کا گوشوارہ داخل کر دیں۔"      ( ١٩٦٦ء، روزنامہ 'جنگ' ٣١ اکتوبر، ٣ )
٩ - ضمائر شخصی کی اطلاقی حیثیت۔
"تشخیص یعنی، متکلم - حاضر اور غائب کا لحاظ ہماری زبان میں بہت کم ہے۔"      ( ١٩١٧ء، اسماعیل میرٹھی، قواعد اردو، ٧٩:٢ )
١٠ - رائے۔
 تیری کیونکر ہو اے دل دار تشخیص جہاں ہو عقل کی بیکار تشخیص      ( ١٨٧٣ء، مناجات ہندی، ٥٨ )
١١ - تشخص، انفرادیت، مرتبہ، درجہ۔
"اگرچہ میں جانتا ہوں کہ سی آئی ڈی کی فاعلوں میں اپنی تشخیص کیا ہے۔"      ( ١٩٧١ء، صلیبیں مرے دریچے میں، ١٠ )
  • individuating
  • distinguishing perfectly;  ascertainment
  • determination
  • diagnosis
  • specification;  estimate
  • valuation
  • appraisement;  assessment