سنسکرت سے ماخوذ اسم 'پہاڑ' کے ساتھ لاحقہ تانیث و تصغیر 'ی' لگانے سے 'پہاڑی' بنا۔ اردو میں بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٨١٠ء کو "کلیاتِ میر" میں مستعمل ملتا ہے۔
جمع غیر ندائی : پَہاڑِیوں [پَہا + ڑِیوں (و مجہول)]
١ - پہاڑ کی تصغیر۔
پہاڑی سے لشکر چلا سوئے کوہ چلے بس تو کریے سیہ روئے کوہ
( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ١٠٩٣ )
٢ - بلاول ٹھاٹھ کی آڑو راگنی کا نام جس میں پانچ سبر لگتے ہیں، مدھم اور نکھاد سر درجت ہیں یعنی نہیں لگتے۔
"بڑے شوق سے رانجھا بانسری پر پانچوں پیروں کو راگ سنانے لگا کبھی اودھو اور کاہن کے بش پدے، کبھی ماجہ پہاڑی پہ آنے لگا۔"
( ١٩٦١ء، ہماری موسیقی، ١٦١ )
٣ - پہاڑیوں کی زبان۔
"موجودہ پنجابی اور اس کی تمام علاقائی بولیاں مثلاً مالوئی، دوآبی - پوٹھوہاری، پہاڑی اور ہند کو وغیرہ اسی پشاچی کے کنبے کی حیثیت رکھتی ہیں۔"
( ١٩٧٢ء، اردو زبان کی قدیم تاریخ ٧٩ )
٤ - مصوری کا ایک اسلوب جس کا تعلق ہمالیہ کی پہاڑی ریاستوں سے بتایا جاتا ہے۔
٥ - بکری کی ایک قسم، پہاڑی بکری۔
کئی بربری ان میں گلزار تھیں پہاڑی تو دودوں (دودھوں) میں سرشار تھیں
( ١٨٩٧ء، نظم آزاد، ١٤٠ )