پیر[1]

( پِیر[1] )
{ پِیر }
( فارسی )

تفصیلات


پیر  پِیر

فارسی سے اردو میں اصل صورت و مفہوم کے ساتھ داخل ہوا۔ بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٥٠٠ء کو "معراج العاشقین" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع استثنائی   : پِیران [پی + ران]
جمع غیر ندائی   : پِیروں [پی + روں (و مجہول)]
١ - بوڑھا، ضعیف، معمّر۔
 ہر ایک چھوٹا بڑا سن سن کر یہ باتیں ہے دبدھا میں عجب اس وقت حالت ہو رہی ہے پیر و برنا کی      ( ١٩٣١ء، بہارستان، ٤٧٦ )
٢ - چالاک، گرو گھنٹال، خرانٹ۔
 حال اس سے کہا کہ قول ہارا ہے پیر یہ نوجوان تمہارا      ( ١٨٣٨ء، گلزارِ نسیم، ٧ )
٣ - مرشد، ہادی، رہنما، گرو، بزرگ۔
"کہانیوں کی مہم میں مہم کے جانباز کو ایک پیر روشن ضمیر ملتا ہے"      ( ١٩٦٥ء، ہماری پہیلیاں، ٢١ )
٤ - استاد، معلم۔
 پیر مکتب سے نہیں مطلق شناسائی تیری علم کی مشعل نہیں رکھتی ہے بینائی میری      ( ١٩٣٣ء، فکرو نشاط، ٥٨ )
٥ - وہ خیالی بزرگ جس کے نام ضعیف الاعتقاد لوگ منت مانتے ہیں اور اس کے فرضی نام کے ساتھ لفظ پیر استعمال کرتے ہیں۔
"کسی نے پیرایکا ایک کا پیسہ اٹھایا کہ ایکا ایک میری آرزو بر آئے"      ( ١٨٨٨ء، طلسم ہو شربا (انتخاب) ١٥٢:٣ )