فارسی زبان سے ماخوذ فعل امر 'خاموش' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت و اسمیت لگانے سے خاموشی بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔
جمع غیر ندائی : خاموشِیوں [خا + مو (و مجہول) + شِیوں (و مجہول)]
١ - آواز اور شور و ہنگامہ کی ضد، چپکا رہنے کی حالت، سکوت۔
"اس قدر سوگوار کیوں ہے اتنی بھیانک خاموشی کیوں چھا گئی ہے۔"
( ١٩٧٥ء، خاک نشین، ٥٦ )
٢ - (روئی وغیرہ کی گدی) یا کپڑا جو خواتین ایام حیض میں استعمال کرتی ہیں۔
"اسی طرح وہ اپنی بیٹیوں کی خاموشیوں (ایام کی گدیوں) کو بھی اپنی تحویل میں رکھتے تھے تاکہ انہیں ان کی صحت کے اعتدال کا پتہ چلتا رہے۔"
( ١٩٧٠ء، یادوں کی برات، ٥٧٤ )