خبط

( خَبْط )
{ خَبْط }
( عربی )

تفصیلات


خبط  خَبْط

عربی زبان سے ثلاثی مجرد کے باب سے مصدر ہے اردو میں بطور حاصل مصدر اور صفت مستعمل ہے سب سے پہلے ١٧٢٧ء کو "دیوان عطا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : خَبْطوں [خَب + طوں (و مجہول)]
١ - قوائے عقلیہ کی وہ اندرونی یا ذہنی کیفیت جس میں افکار و خیالات حالت طبعی سے بدل کر فاسد و بیہودہ ہو جاتے ہیں۔ سودا، عقل و جنون کی مِلی جُلی کیفیت۔
"خبط میں بھی مریض کے ذہن پر ہمیشہ ایک خیال مسلط رہتا ہے"      ( ١٩٦٩ء، نفسیات اور ہماری زندگی، ٤٩٧ )
٢ - وہم، بدگمانی، عقل کی وہ اندورنی کیفیت جس کی وجہ سے فاسد خیالات پیدا ہوتے ہیں۔
 حد سے جو سوا ہو حرص یا خود بینی اکثر ہے یہی کہ خبط ہو جاتا ہے      ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ٢٦:١ )
٣ - الجھاؤ، پیچیدگی، مغالطہ۔
"قضیہ مہلہ الجہات میں منطقیوں کو بہت خبط ہوا ہے"    ( ١٩٢٥ء، حکمۃ الاشراق، ٤٨ )
٤ - عبارت کے لحاظ سے گنجلک، بے معنی۔
"ننھے میاں کی ایک ہی چیخ سے سارا مضمون خبط ہو جاتا ہے"    ( ١٩٢٨ء، نکات رموزی، ١٦٧:٢ )
٥ - دُھن، لگن۔
 حکام سے نیاز نہ گاندھی سے ربط ہے اکبر کو صرف نظم مضامین کا خبط ہے      ( ١٩٢١ء، اکبر، گاندھی نامہ، ٥٧ )
٦ - بیہودہ خیال یا شوق۔
"اسے میرا ذوق سخن سمجھیے یا ایک طرح کا خبط"      ( ١٩١٧ء، مکاتیب مہدی، ١٤ )
٧ - [ نفسیات ]  نفسیات میں وہ حالت جب مریض جانچ کے اس مرحلے پر پہنچ جائے جہاں تشیخص مرض ممکن ہو۔
"تحلیل نفسی کی حالت میں جب مریض کسی اہم خبط کو چھونے کے قریب ہوتا ہے تو وہ اس سے گریز کرتا ہے"      ( ١٩٦٠ء، مذہب تہذیب موت، ٩١ )
صفت ذاتی ( واحد )
١ - بے سروپا، غیر صحیح، نادرست، غلط۔
"عجب خبط کی کہانی ہے مجھے بالکل اس کا یقین نہیں آسکتا"      ( ١٩٠٤ء، خالد، ١٠٣ )
٢ - بیحد شوق، دلی آرزو، زبردست خواہش۔
"انہیں یہ خبط تھا کہ نہ صرف فرسٹ کلاس فرسٹ آوں بلکہ اگلے پچھلے ریکارڈ بھی توڑ دوں"      ( ١٩٨٢ء، مری زندگی فسانہ، ٢٢١ )
٣ - خیال خام، غلط نظریہ۔
"گاہکوں کہ یہ خبط ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ کسی ایسے تیل کی تلاش میں رہتے ہیں جو دماغ کو تازہ رکھے"      ( ١٩٢٠ء، انتخاب لاجواب، ٧ مئی، ١٥ )
١ - خبط میں پڑ جانا
وہم میں مبتلا ہو جانا۔"صبح کو جب اس نے اپنے سر کے بال کٹے ہوئے دیکھے اور بھی خبط میں پڑ گیا۔"      ( ١٩٠٠ء، خورشید بہو، ١٢٥ )