سائیں

( سائِیں )
{ سا + اِیں }
( سندھی )

تفصیلات


اصلاً سندھی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں سندھی زبان سے داخل ہوا۔ اصل معنی اور اصل حالت میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٦٥ء کو "جواہر اسرار اللہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد ندائی   : سائِیاں [سا + اِیاں]
جمع غیر ندائی   : سائِیوں [سا + اِیوں (واؤ مجہول)]
١ - خدا۔
"یہ سائیں کی مہربانیاں ہیں"      ( ١٩٢٦ء، اودھ پنچ، لکھنو، ١١، ١٠:٢ )
٢ - آقا، مالک، شوہر۔
 جیوے سائیں کیا سکھ پایا مٹی گارا اور اینٹیں      ( ١٩٨١ء، ملامتوں کے درمیان، ٧٩ )
٣ - درویش، فقیر۔
 سائیں نہ ہم، نہ ہیں ہم درویش پھیری والے آئے ہیں ان کے خاطر جھولی گلے میں ڈالے      ( ١٩٣٢ء، شعاع میر، ناراین پرشاد و رما، ١٦٤ )
٤ - گدا، بھکاری۔
"آگے چلو سائیں یہاں برکت ہے"      ( ١٩٧٥ء، لغت کبیر،١، ٤٩١:٢ )
٥ - وڈیرہ۔ جاگیردار۔ بڑا۔ بزرگ۔ صاحب حیثیت۔
"سائیں یہ سامنے شہر زرور ہے جہاں راجہ مل حکومت کرتا ہے"      ( ١٩٨٨ء، صیحفہ: لاہور، مارچ، ٣٦ )
١ - سائیں راج بلند کرے
شوہر کا دور عروج کا دور ہوتا ہے۔"شوہر جس پر عورت گھمنڈ کرسکتی ہے اور وہ کمائی جس پر بیوی کو زور ہوتا ہے ختم ہو چکی تھی سائیں راج بلند راج پوت راج محتاج راج۔"      ( ١٩٢٣ء، بچہ کا کرتہ، ٥ )
٢ - سائیں کے سو کھیل
خدا بڑا حکمت والا ہے جو چاہے سو کرے۔"خدا کو اس ہی میں بہتری منظور رہے سائیں کے سو کھیل۔"      ( ١٩٥٨ء، شمع خرابات، ٢١٠ )
٣ - سائیں روٹھے ہم چھوٹے
خدا ناراض تو جگ ناراض۔ سائیں روٹھے اور ہم چھوٹے سب کہنے کی باتیں ہیں یہ بن مو پر مہر ہے ان کی ظاہر کوئی دام نہیں      ( ١٩٦٠ء، آتش خنداں، ١٨٠ )