مالک

( مالِک )
{ ما + لِک }
( عربی )

تفصیلات


ملک  مالِک

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٦٠٩ء، کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتاہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : مالِکان [ما + لِکان]
جمع استثنائی   : مالِکین [ما + لِکین]
جمع غیر ندائی   : مالِکوں [ما + لِکوں (و مجہول)]
١ - کسی چیز کی ملکیت رکھنے والا شخص، والی۔
"اسٹال کے مالکوں کی آنکھوں میں بے زاری اور دشمنی کے آثار نمایاں ہو جاتے"      ( ١٩٨٦ء، بارگشت و بازیافت، ٩٦ )
٢ - اللہ تعالٰی کا ایک صفائی نام
 رہے باپ بیٹوں پہ مالک کا سایہ مع جاہ و اقبال و دولت سلامت      ( ١٩٢٨ء، مرقع لیلیٰ مجنوں، ٨ )
٣ - شوہر، خاوند
 جسم شوہر جوہوا خنجر دشمن سے فگار چیخی بیوی کوئی آ کر مرے مالک کو بچائے      ( ١٩٨٢ء،ط ظ ، ٩١ )
٤ - آقا، صاحب حاکم
 توہی ہے رازق و مالک تمام جانوں کا سبھی ہیں دست نگر لا الہ الا اللہ      ( ١٩٨٨ء، مرج البحرین، ١٣ )
٥ - اختیار رکھنے والا، با اختیار، صاحب اختیار
"وہ اپنے گھر میں مالک و مختار تھیں"      ( ١٩٩٢ء، قومی زبان، کراچی، نومبر، ٢٧ )
٦ - قابض، متصرف
 مالک ہوں میں کوئے صنم پردہ نشیں کا دوزخ کہوں گر روضۂ رضوان ادھر آئے      ( ١٨٦١ء، کلیات اختر، ٧١٧ )
٧ - ایک فرشتے کا نام جو دوزخ کا نگراں ہے، دوزخ کا داروغہ۔
"مالک نام ہے فرشتہ کا جو دوزخ کا داروغہ ہے"      ( ١٩٣٢ء، ترجمہ قرآن، (تفسیر) مولانا شبیر احمد عثمانی، ٨٤٦ )
٨ - وہ سوداگر جس نے حضرت یوسف کو مصر میں بہت سستا بیچ ڈالا۔
 کیا پانی کے مول آ کر مالک نے گر بیچا ہے سخت گراں سستا یوسف کا بکا جانا      ( ١٨١٠ء، میر(نوراللغات) )
٩ - امام مالک، فقۂ اہل سنت کے چار بڑے اماموں میں سے ایک کا نام جن کے پیرو مالکی کہلاتے ہیں۔ مسلک مالکی کے پیروکار۔
 بے فقہ جو صوفی ہووے سالک زندیق ہے وہ بقول مالک      ( ١٨٧٤ء، جامع المظاہر منتخب الجواہر،٩ )