جانی

( جانی )
{ جا + نی }
( فارسی )

تفصیلات


جان  جانی

فارسی زبان میں اسم 'جان' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ نسبت لگنے سے 'جانی' بنا اردو میں اصلی حالت میں ہی بطور اسم اور گا ہے بطور اسم صفت اور گا ہے بطور حرف بھی مستعمل ملتا ہے ١٦٣٥ء میں "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

حرف تابع ( مذکر - واحد )
١ - "اماں، ابا وغیرہ کے ساتھ (لاڈ ظاہر کرنے کے لیے) اضافہ کیا جاتا ہے"
"ابا جانی جو اس کی محبت کا دم بھرتے، دیکھو میں کہتی ہوں برا کرتے ہیں"      ( ١٨٩٠ء، فسانۂ دل فریب، ٩٤ )
صفت نسبتی ( واحد )
١ - جان سے منسوب، جان کا پکا، سچا۔
 اب تو ہے، تلاش یار جانی مجھ کو ہے یاد اب تک وہ مہربانی مجھ کو      ( ١٩١٧ء، رشید، رباعیات، ٦٨ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : جانِیوں [جا + نِیوں (واؤ مجہول)]
١ - عزیز، دلارا، پیارا۔
 اس پیر فلک کو ہائے جانی بھائی نہ تری یہ نو جوانی      ( ١٨١٤ء، نورتن، ٤٦ )
٢ - محبوب، معشوق۔
 جانی تجھے جس نے بخش دی تھی معمورۂ جاں کی بادشاہی      ( ١٩٧٥ء، حکایت نے، ٧٤ )