عزیز

( عَزِیز )
{ عَزِیز }
( عربی )

تفصیلات


عزز  عَزِیز

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور صفت نیز اسم استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٥٠٣ء کو "نوسرہار (اردو ادب)" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : عزِیزَہ [عَزی + زَہ]
جمع استثنائی   : اَعِزَّہ [اَعِز + زَہ]
جمع غیر ندائی   : عَزِیزوں [عَزِی + زوں (و مجہول)]
١ - زبردست، صاحب قوت و اختیار، غالب، قادر، اللہ تعالٰی کا ایک صفاتی نام۔
 تو سلام و خالق و متعالی و عدل و کریم تو عزیز و باری و غفار و فتاح و علیم      ( ١٩٨٤ء، الحمد، ٨٤ )
٢ - پیارا، محبوب۔
"ان کی شخصیت میں یہ حسن پیدا ہو گیا تھا کہ ہر کس و ناکس کو وہ عزیز ہو جاتے تھے۔"      ( ١٩٨٤ء، مقاصد و مسائل پاکستان، ٢٢٩ )
٣ - دوست، یار، ساتھی، آشنا (عموماً اپنے سے عمر میں چھوٹے کے لیے مستعمل)۔
"اے عزیز تو مڑ کر نہیں دیکھ سکتا۔"      ( ١٩٨٧ء، آخری آدمی، ٥٧ )
٤ - قرابت رکھنے والا، رشتہ دار۔
"دیکھئے جو لوگ یہاں آتے ہیں وہ ہمارے آپ کے عزیز رشتہ دار ہیں نا۔"      ( ١٩٨٠ء، زمیں اور فلک اور، ٧٩ )
٥ - گراں قدر، بیش بہا۔
 تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں    ( ١٩٢٤ء، بانگ درا، ٢٨١ )
٦ - بزرگ، گرامی، معزز۔
"قوم کی حالت تباہ ہے، عزیز ذلیل ہو گئے ہیں۔"    ( ١٩٤٦ء، محمود شیرانی، مقالات، ٥:١ )
٧ - [ حدیث ]  آحادکی کی ایک قسم جسے ہر زمانے میں دو راویوں نے روایت کی ہو۔ (ماخوذ : نورالہدایہ، 5:1)
"مرفوع، موقوف . مشہور و عزیز . کتنی اقسام حدیث ہیں۔"      ( ١٩٨٦ء، اردو میں اصول تحقیق، ٤٢:١ )
٨ - قدیم زمانے میں مصر کے بادشاہ کا لقب، (مصر کے وزیر کو بھی عزیز کہتے تھے)
"وہ علامہ عصر کا ہو یا عزیز مصر کا۔"      ( ١٨٠١ء، باغ اردو، ١١٩ )
٩ - ایک قسم کی تلخ بوٹی جو مقوی معدہ ہے، قنتاریون۔ (ماخوذ : پلیٹس)
  • dear
  • daurling
  • worth
  • respected
  • beloved
  • honoured
  • esteemed
  • excellent
  • precious
  • friend