شعور

( شُعُور )
{ شُعُور }
( عربی )

تفصیلات


شعر  شُعُور

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٦٥٧ء کو "گلشنِ عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
١ - کسی کام کو انجام دینے کا سلیقہ، تمیز؛ کسی کام کا ملکہ۔
 خود اپنے فائدے کا نہیں جس کو کچھ شعور کچھ بھی سہی مگر وہ ہے آدمی آن بان کا      ( ١٩٨٢ء، ط ظ، ٥٤ )
٢ - ہوشیاری، سمجھ بوجھ، احساس، دانائی۔
"کتاب کے مطالعے سے آپ کے علم اور آپ کے شعور میں اضافہ ہوتا ہے"      ( ١٩٨٤ء، مقاصد و مسائل پاکستان، ٦ )
٣ - پہچان، آگاہی، پہچاننا ہر چیز کا، عقل، جاننا؛ علم حاصل کرنا۔
"انسان نے جب اپنی زندگی فطری ماحول میں گزارنی شروع کی تو اس وقت اس میں شعور بیدار نہیں ہوا تھا"      ( ١٩٦٧ء، عالمی تجارتی جغرافیہ، ١١٠ )
٤ - عمر کی وہ ابتدائی منزل جب انسان میں سمجھ اور احساس بیدار ہو یا شروع ہوا ہو، بلوغ۔
"سنِ شعور کو پہنچ کر دوبارہ پڑھا تو بے ساختہ اعتراف پر مجبور ہو گئیں"      ( ١٩٨٨ء، نگار، کراچی، مارچ، ٢٩ )
٥ - [ تصوف ]  ذات و صفاتِ الٰہی سے واقف ہونا جو محمور ہے اور غیربت کا شعور مذموم ہے۔
"اس صفتِ شعور اور صحو کو غیبت اور سکر سے اتم اور اکمل بیان کیا ہے"      ( ١٨٩٣ء، ترجمۂ رشحات، ٦١ )
٦ - [ نفسیات ]  نفس کی وسیح ترین کیفیت جس کے ماتحت تمام کیفیاتِ نفسی وقوف احساسِ ارادہ ہیں۔
"اس کے شعور سے وہ خوشگوار احساس بھی معدوم ہو گیا۔"      ( ١٩٨٦ء، جوالامکھ، ٣٢ )
  • knowledge
  • wisdom
  • sense
  • sagacity;  good management