اسم  نکرہ (  مذکر - واحد  ) 
                        
                          
                            
                              ١ - اختصار، لُبِ لباب، ماحصل، اصل مطلب۔
                            
                            
                                
                                
                                  "مجھے امید ہے کہ آپ نے اس معاملے کے متعلق تمام باتوں کا خلاصہ تیار کر لیا ہو گا۔"     
                                  ( ١٩٤٦ء، جھانسی کی رانی، ٨٧ )
                                
                             
                           
                          
                            
                              ٢ - منتخب یا چیدہ، بہترین۔
                            
                            
                                
                                
                                  "یہ لوگ انگریزی سوسائٹی کا خلاصہ اور انگلستان کی شرافت کا عطر تھے۔"     
                                  ( ١٩٣٥ء، معاشرت، ظفر علی خاں، ٧١ )
                                
                             
                           
                          
                            
                              ٣ - مفصل۔
                            
                            
                                
                                
                                  "موئی کسی بات کا اور چھور ہے کہ کچھ خلاصہ (مفصل) تو بتا، آخر معاملہ کیا ہے۔"   
                                  ( ١٩١٥ء، سجاد حسین، کایا پلٹ، ٧٤ )
                                
                             
                           
                          
                            
                              ٤ - روشن، صاف، کھلا ہوا (مطلب وغیرہ)۔
                            
                            
                                
                                
                                   عبدہ ہے حرف غمزہ من رائی ہے خلاصہ خبر احد ہے سب بہانہ کیا سنیائیں اے حدیث   
                                  ( ١٦٧٩ء، دیوان شاہ سلطان ثانی، ٢٢ )
                                
                             
                           
                          
                            
                              ٥ - عندیہ، ارادہ، دل کی بات۔
                            
                            
                                
                                
                                   رضاشہ کی ہوئے تو گھر اس کوں لیجاؤں خلاصا جو کچ اس کیرا ہے سو پاؤں     
                                  ( ١٦٣٩ء،طوطی نامہ، غواصی، ٦٦ )
                                
                             
                           
                          
                            
                              ٦ - فراخ، کشادہ، وسیع، چوڑا، متخلل، ڈھیلا۔ (فرہنگ آصفیہ)
                            
                            
                            
                           
                          
                            
                              ٧ - کشادگی، فرحت۔
                            
                            
                                
                                
                                  "تمام خلاصہ جات اگر مہرہ کردہ کلہیوں میں حفاظت سے نہ رکھے جائیں تو خراب ہو جاتے ہیں۔"     
                                  ( ١٩٤٨ء، علم الادویہ، ١٤:١ )
                                
                             
                           
                          
                            
                              ٨ - [ موسیقی ]  کسی راگ کے ساتھ لگایا جانے والا ضمنی سُر۔
                            
                            
                                
                                
                                  "راگ کا نمایاں سر کومل دھیوت ہے اور رکھب کو خلاصے کے طور پر لگاتے ہیں۔"     
                                  ( ١٩٦١ء، ہماری موسیقی، ١٩ )
                                
                             
                           
                          
                            
                              ٩ - کم، مختصر۔
                            
                            
                                
                                
                                  "شاہزادگی بھی خلاصہ ہوتے ہوتے ساڑھے پانچ روپے ماہوار کی رہ گئی تھی۔"     
                                  ( ١٩٧٠ء، غبار کارواں، ١٤٦ )