دریا

( دَرْیا )
{ دَر + یا }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد ہے اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا اردو میں ١٥٦٤ء کو حسن شوقی کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : دَرْیاؤں [دَر + یا + اوں (و مجہول)]
١ - پانی کی وہ لمبی اور کسی قدر چوڑی دھار جو ایک منبع (جھیل یا پہاڑ وغیرہ) سے نکل کر خشکی پر دور تک بہتی ہے اور آخر میں کسی دوسرے دریا یا سمندر میں جا ملتی ہے، بڑی ندی۔
"پاکستانی ہو? . میں نے بے چارگی سے سر ہلا دیا پھر تو دریا کے اس کنارے تمہیں کوئی بھی ہوٹل میں جگہ نہیں دے گا۔"      ( ١٩٨٣ء، خانہ بدوش، ١٦ )
٢ - سمندر۔
"فارسی میں دریا سمندر کو کہتے ہیں بمبئی کے عوام بھی سمندر کو دریا ."      ( ١٩٨٧ء، گردش رنگ چمن، ٤٥٨ )
٣ - [ تصوف ]  خالص غیر مخلوق، خدائی طاقت۔ (ماخوذ: جامع اللغات)