قرب

( قُرْب )
{ قُر + ب }
( عربی )

تفصیلات


قرب  قُرْب

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے اردو میں بمعنی و ساخت من و عن داخل ہوا اور بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٤٢١ء کو "معراج العاشقین" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - نزدیکی (ظاہری، باطنی، زمانی یا مکانی)، نزدیک آنا، قربت (بعد کی ضد)۔
 کبھی جو قرب میں جاگی بدن کی سچائی تو اپنے آپ سے ڈرنا اسی کو آتا تھا    ( ١٩٨٨ء، آنگن میں سمندر، ٧٥ )
٢ - نزدیکی پہنچ، رسائی۔
 معانی تے تس قرب مرداں کوں دے سکت جنگ جوئی کا گرداں کوں دے    ( ١٦٦٥ء، علی نامہ، ١٠ )
٣ - پڑوس، ہمسائیگی۔ (ماخوذ: پلیٹس)
٤ - مرتبہ، منزلت۔
 ہر ایک حال خدا کوں یقین سوں جپنا ولایت ہور ثبوت یو قرب ہے اپنا      ( ١٦٣٥ء، سب رس، ٧ )
٥ - [ تصوف ]  حقیقت قاب قوسین کو کہتے ہیں، بعض کہتے ہیں کہ بندے کا شریعت کے ساتھ طریقت کا نگاہ رکھنا اور طریقت کے ساتھ حقیقت کی حفاظت کرنا۔ (ماخوذ: مصباح التعرف)
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - قرب، نزدیک۔
 محل یار تک اے دل خدا چو پہنچا دے جگہ نشست کو گر پڑ کے قربِ در لینا      ( ١٨٧٠ء، دیوانِ آغا حجو شرف، ٧ )