پہلو

( پَہْلُو )
{ پَہ (فتحہ مجہول) + لُو }
( فارسی )

تفصیلات


پہلو  پَہْلُو

فارسی سے اردو میں اصل صورت اور مفہوم کے ساتھ داخل ہوا۔ سنسکرت میں اسکا مترادف 'پارستوا' مستعمل ملتا ہے۔ اغلب امکان ہے کہ فارسی میں سنسکرت سے آیا ہو۔ 'پہلو' اردو میں بطور اسم اور گا ہے متعلق فعل استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٦٤٩ء کو "خاور نامہ (قلمی نسخہ)" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : پَہْلُوؤں [پَہ (فتحہ پ مجہول) + لُو + اوں (و مجہول)]
١ - پسلی۔
 نہ چیرو گے پہلوئے زن جب تلک شکم سے نہ نکلے گا یہ تب تلک    ( ١٨١٠ء، شاہ نامہ منشی، ١٠٣ )
٢ - جسم کی دائیں یا بائیں طرف سینہ، بالخصوص بائیں طرف کا حصہ جدھر دل ہوتا ہے۔
 حسن خود عشق کا مشتاق رہا کرتا ہے دل ہے پہلو میں تو مل جائے گا دلبر کوئی    ( ١٩١٥ء، جانِ سخن، ١٦٨ )
٣ - کروٹ، سرتاپا بغلی حصہ۔
"شب و روز کے انقلاب میں ان دانش مندوں کے لیے نشانیاں ہیں جو اٹھتے بیٹھتے اور پہلو پر لیٹتے ہوئے اللہ کو یاد کرتے ہیں"    ( ١٩١٤ء، سیرۃ النبیۖ، ٢٥٢:٢ )
٤ - طرف، جانب، سمت، رُخ۔
"اس نے گھوڑے کے ایک پہلو کو دبایا"    ( ١٩٢٨ء، مضامینِ فرحت، ١٠٦:١ )
٥ - طرفی یا جانبی خط، ضلع، زاویہ بنانے والا خط۔
"جامع مسجد کے پہلو اور نقشے معمول کے خلاف ہیں"    ( ١٩٣٢ء، اسلامی فنِ تعمیر، ٦٣ )
٦ - انداز، ادا؛ نقطۂ نظر، زاویۂ نگاہ۔
"آج اور بہت سے نئے پہلوؤں سے ان مسائل پر بحث کی ضرورت ہے"      ( ١٩٠٤ء، مقالاتِ شبلی، ٢٦:١ )
٧ - باریکی، تہہ داری۔
"تم . بات کے پہلو سمجھنے کی لیاقت بھی نہیں رکھتے اور چلے ہو نازک باریک مسئلوں کو طے کرنے"      ( ١٩١٥ء، سجاد حسین، پیاری دنیا، ١١ )
٨ - رُخ، زاویہ، گوشہ۔
 جو ہو سچ بات وہ اے نظم دو پہلو نہیں رکھتی نظر آتا ہے یکساں رکھیے سیدھا یا گُہر الٹا      ( ١٩٣٣ء، صورتِ تغزل، ١٦ )
٩ - رمز، اشارہ، کنایہ۔
 ترا دامن دبا لینا تہ زانو سمجھتے ہیَں ابھی کوئی نہ اٹھے ہم بھی یہ پہلو سمجھتے ہیں    ( ١٩٠٣ء، نظم نگاریں، ٧٢ )
١٠ - نکتہ، پوشیدہ بات، حقیقت۔
"تاہم اس خیال میں یہ سکون کا پہلو ضرور تھا کہ وہ ذاتی شکوہ و شکایت سے بہت بلند تھا"    ( ١٩٤٧ء، قیامت ہم رَکاب آئے، ٤٠ )
١١ - موضوع، عنوان۔
"جب کبھی اس پہلو پر نصیحت کرتے تو یہی فرماتے کہ بیٹا جو کچھ کرنا ہے خود ہی کرو"      ( ١٩٢٨ء، مضامینِ فرحت، ٤:١ )
١٢ - نگینے کا ماتھا، باڑ، نگینے کا بغلی رُخ جو جڑائی میں آجاتا ہے۔ (ماخوذ: اصطلاحاتِ پیشہ وراں، 52:4)۔
١٣ - اونٹ۔ (اصطلاحاتِ پیشہ وراں، منیر، 61)۔
١٤ - [ معماری ] کمان کے نیچے کا نصف حصہ جو کمان کی چوٹی سے آدھی دور اور نرد بند تک ہوتا ہے۔
"نصف دائری پلوں میں پہلو کے ابھار کی روک کمان شانہ کے موزوں بھراؤ سے کرنی چاہیے"١٩٢٨ء، رسالہ رڑکی چنائی، ٧٢
١٥ - قرب، پاس، پڑوس، جوار، قربت۔
"مرتے وقت وصیت کی کہ محاصرۂ طائف میں جو مسلمان شہید ہو چُکے ہَیں، انہیں کے پہلو میں دفن کیے جائیں"    ( ١٩١٤ء، سیرۃ النبیۖ، ٤٣:٢ )
١٦ - قرب، پاس، برابری (مرتبے کے لحاظ سے)
"مگر میر صاحب کے پہلو میں نسیم کو کرسی دینی ظُلم ہے"    ( ١٩٠٦ء، معرکۂ چکبست و شرر، ٢٤٢ )
١٧ - [ مجازا ]  صورت، حالت۔
 کسی پہلو جو حسینوں میں ٹھہرنے پاتے گل بازی کی طرح ہم نہ اچھلتے پھرتے      ( ١٨٥٢ء، کلیاتِ منیر، ٤١٩:٣ )
١٨ - آغوش، گود، بغل۔
 شب کو پہلو میں جو وہ ماہ سیہ پوش آیا ہوش کو اتنی خبر ہے کہ نہ پھر ہوش آیا      ( ١٩٤٦ء، طیورِ آوارہ، ١٢ )
١٩ - غرض، مطلب۔
 جو تھا وہی دل لیے ہوئے تھا اپنا پہلو لیے ہوئے تھا      ( ١٨٨٧ء، ترانۂ شوق، ٧٦ )
٢٠ - بہانہ۔
 رقم ہو جس میں حالِ دل اِسی کاغذ میں دل رکھدوں کوئی پہلو ملے گر پیش کشِ سوغات کرنے کا      ( ١٨٩٥ء، دیوان راسخ دہلوی، ٣٤ )
٢١ - طرح، طور۔
 تڑپا کیا تصورِ دلبر میں شام سے کل صبح تک مجھے کسی پہلو نہ آئی رات      ( ١٨٥٧ء، بیاض سحر، ١٤٠ )
٢٢ - موقع، محل۔
 امید افزاء کوئی صورت نہ تسکین کا کوئی پہلو نتیجہ کیا وہ قائم ہی سہی عہد محبت پر      ( ١٩٣٢ء، نقوشِ مانی، ٢٩ )
٢٣ - انصاف کا تقاضا، شِق، زمرہ۔
"اور انصاف کے کسی پہلو کو جس کی آپ سے توقع ہے نظر انداز نہ فرمایا"      ( ١٩١٢ء، شہید مغرب، ٩٠ )
٢٤ - سہارا، نشان۔
 دور سے کوچۂ دلبر کو کھڑا تکتا ہوں نہ تو دیوار کا تکیہ نہ تو در کا پہلو      ( ١٨٤٦ء، آتش، کلیات، ٢٢٩ )
٢٥ - ڈھب، تدبیر، ذریعہ، وسلیہ، راستہ۔
 اب تو دامن پہ لہو ہے کہو کیا کہتے ہو اب تو انکارِستم کا کوئی پہلو بھی نہیں      ( ١٩٦٨ء، رشکِ قمر، ٨١ )
متعلق فعل
١ - سامنے۔ (نوراللغات؛ فرہنگِ آصفیہ)