طور

( طَور )
{ طَور (و لین) }
( عربی )

تفصیلات


طور  طَور

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بھی بطور اسم مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
جمع   : اَطْوار [اَط + وار]
١ - حال، حالت، گت۔
 پھیکے عارض ہیں نسترن کے بگڑے ہوئے طور ہیں چمن کے      ( ١٩١٨ء، سحر (سراج میر خان)، بیاض سحر، ٩٨ )
٢ - وضع، ڈھنگ، روش، طرز، انداز۔
 جب لیلٰی شب کا دور بدلا نیرنگ جہاں کا طور بدلا      ( ١٩١٨ء، مطلع انوار، ١٦٣ )
٣ - طرح، طریقہ، راہ ("پر" یا "سے" کے بغیر بھی مستعمل)۔
 اب کسی طور سے گھر جانے کی صورت ہی نہیں راستے میرے لیے ہو گئے دلدل کی طرح      ( ١٩٧٧ء، خوشبو، ٧٦ )
٤ - قسم، نوع، بھانت۔
"خواجہ سلطان کے طور کے احدی بندے شہر میں بہتیرے ہی بھرے پڑے تھے۔"      ( ١٨٩٩ء، رویائے صادقہ، ١٦٦ )
٥ - [ تصوف ]  حال اور نشان۔ (ماخوذ: مصباح التعرف، 166)
١ - طور بگڑنا
حالت خراب ہونا، رنگ ڈھنگ یا انداز خراب ہونا، لچھن خراب ہونا۔ ہر آشنا ایسا ہے اب آشنا کا طور دو دن میں جیسے بگڑے ہے رنگ حنا کے طور      ( ١٨٤٥ء، کلیات ظفر، ١٠٥:١ )
  • state
  • condition
  • quality;  kind
  • sort;  manner
  • mode
  • way;  conduct
  • demeanour