اسم مجرد ( مؤنث - واحد )
١ - طور، طریقہ، ڈھب، تدبیر۔
دم بھر کو عاریت کی طرح بھی خوشی نہ دی اتنا میں چشم دہر میں بے اعتبار تھا
( ١٩٢٢ء، تجلائے شہاب ثاقب، ٤٠ )
٢ - دلکشی کا ڈھنگ، ناز، ادا، بالکپن، چھب؛ چہرہ مہرہ، وضع قطع۔
نغموں کی زباں میں کوئی سمجھے تو بتائیں کیا چیز ہیں یہ طرز یہ طرحیں یہ ادائیں
( ١٩٥٨ء، تارِ پیراہن، ٥٧ )
٣ - بنیاد، بنا، تمہید۔
"طرح۔ یہ لفظ عربی میں بنیاد کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔"
( ١٩٨٨ء، اردو، کراچی، جولائی تا ستمبر، ٩٣ )
٤ - صورت، حالت۔
کیا کہیں تسلیم ہجر یار میں پھر وہی ہے شام سے دل کی طرح
( ١٩٠٠ء، نظم دل افروز، ١٥٣ )
٥ - وہ مصرع جو مشاعرے وغیرہ میں وزن اور قافیہ ردیف مقرر کرنے کے لیے نمونے کے طور پر دیا جاتا ہے سب شرکائے مشاعرہ اسی پر طبع آزمائی کرتے ہیں۔
"طرح . سے مراد ہے وہ مصرع جو غزل کی زمین (بحر ردیف قافیہ) بتانے کے لیے شعراء کو دیا جاتا ہے۔"
( ١٩٨٥ء، کشاف تنقیدی اصطلاحات، ١٧٨ )
٦ - وضع قطع، روپ، بھیس، صورت۔
دوپٹہ شانوں سے نیچے کھلی ہوئی زلفیں ذرا بتائیے مجھ کو یہ ہے کہاں کی طرح
( ١٩٢٤ء، دیوان بشیر، ٣٣ )
٧ - (ساخت، ترتیب اور مکان وغیرہ سے مل کر حاصل ہوئی) ہئیت مجموعی، نمونہ۔
"مکانات کی قطع وضع کے ساتھ ان کے فرنیچر کی بھی طرح بدلتی جاتی تھی۔"
( ١٩٠٤ء، آئین قیصری، ٦ )
٨ - روش، طرز، انداز، چلن۔
واعظ سے فراز اپنی بنی ہے نہ بنے گی ہم اور طرح کے ہیں جناب اور طرح کے
( ١٩٨٦ء، بےآواز گلی کوچوں میں، ٥٩ )
٩ - قسم، نوع۔
"تیسرا داؤں . تو یقیناً اچھا ہے بھی کیونکہ اس میں کئی طرح کے مضامین ہیں۔"
( ١٩٤٧ء، فرحت اللہ بیگ، مضامین، ١:٣ )
١٠ - روئداد (کسی امر واقعی کی) کیفیت، صورت حالت (جو پیش آئے)۔
مدت سے تختہ مشق اطبا ہوں دوستو اب تک ہے میرے درد جگر کی وہی طرح
( ١٩٠٠ء، نظم دل افروز، ١٤٩ )
١١ - معیار، حیثیت۔
"شام تک ایک طرح مقابلہ رہا۔"
( ١٩٠٠ء، طلسم خیال سکندری، ٣٠٧:٢ )
١٢ - کسی حاکم کا زبردستی رعیت کے ہاتھ زیادہ قیمت اپنا مال فروخت کرنا۔ (فرہنگ آصفیہ)