قہر

( قَہْر )
{ قَہْر (فتحہ ق مجہول) }
( عربی )

تفصیلات


قہر  قَہْر

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے اردو میں حقیقی معنی و ساخت کے ساتھ داخل ہوا اور بطور اسم، صفت اور گا ہے متعلق فعل استعمال کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - غلبہ، زبردستی، زور آوری، چیرہ دستی۔ (ماخوذ: فرہنگ آصفیہ؛ نوراللغات)
٢ - غضب، غصہ، خشم، طیش۔
"اس کے خائف ہونے کی یہ وجہ . قہر و جلال سلطانی اور ہیت اور غضب و درندگی شیر موجب خوف ہے۔"      ( ١٩٣٢ء، تفسیر القرآن حکیم، مولانا شبیر احمد عثمانی، ١٠ )
٣ - آفت، قیامت، شامت، مصیبت۔
 کچھ اثر آہ میں جو پیدا ہو قہر ہو جائے حشر برپا ہو    ( ١٨٥٤ء، غنچۂ آرزو، ١١٨۔ )
٤ - عذاب، غضب۔
"آج جس قہر کے نازل ہونے کا امکان ہے اس کی بنیاد بھی یہی ہے۔"    ( ١٩٨٥ء، پنجاب کا مقدمہ، ١٣٤ )
٥ - ظلم و ستم، ناانصافی، اندھیر۔
"کالج کو حکومت کے قہرسے بچانے کے لیے نواب محسن الملک نے آنریری سیکریٹری کے عہدے سے استعفٰی دے دیا۔"      ( ١٩٧٧ء، اردو ہندی تنازع، ٢٢٦ )
٦ - افسوس، حیف، دریغ،غضب۔
 کیا قہر ہے یارو، جسے آجائے بڑھاپا اور عیش جوانی کے تیئں کھائے بڑھاپا      ( ١٨٣٠ء، کلیات نظیر،٢، ١١١:٢ )
٧ - جوش، جذبہ، ولولہ، دشوار کام، کٹھن بات، نہایت مشکل امر، سخت کام، روگ، بلائے جاں، مصیبت۔ (فرہنگ آصفیہ؛ نوراللغات)
صفت ذاتی
١ - فتنہ، فتنہ پرواز۔
 موٹے کمر وہ قہر ہیں زلفیں ہیں یہ بلا شوخی بھری ہوئی ہے تیرے بال بال میں      ( ١٨٥٨ء، دیوانِ امانت، ٥٧ )
٢ - آفت کا پر کالہ، نہایت عیار، شوخ۔
 قہر ہو یا بلا ہو جو کچھ ہو کاشکے تم میرے لیے ہوتے      ( ١٨٦٩ء، دیوانِ غالب، ٢٤٣ )
٣ - قابل تحسین، قابل تعریف، نہایت خوبصورت۔
 طفلی سے اور قہر ہوا وہ شباب میں تابش ہو دوپہر کو فزوں آفتاب میں      ( ١٨٤٦ء، کلیات آتش، ١١٠ )
٤ - نہایت بدمزاج، تندمزاج، غصیل، خشمناک، کڑوا۔
 چڑھی تیوری کبھی اس کی نہ اتری غضب ہے قہر ہے پیارا ہمارا      ( ١٨١٠ء، کلیات میر، ٦٧٢ )
٥ - نہایت ہی مشکل، ادق، لایخل۔ (فرہنگ آصفیہ؛ مہذب اللغات)
٦ - بُرا، نامناسب، ناگوار طبع۔
 میں نے جو کچھ لکھا تو ہوا قہر کون سا پر لو قسم اگر ہو بجز انکسار خط      ( ١٨٤٤ء، ممنون (فرہنگ آصفیہ) )
٧ - جوش۔
"نعوذ باللہ یو پانی اگر قہر میں آوے، دریا کوں ڈباوے۔"      ( ١٦٣٥ء، سب رس، ٥١ )
٨ - عجیب، انوکھا، طلسم۔ (ماخوذ: نوراللغات؛ فرہنگ آصفیہ)
٩ - [ تصوف ]  تجلی جمالی کو کہتے ہیں، یہ ایک تائید حق ہے طالب کے واسطے جو طالب کو فانی کر کے سرحد فنا فی اللہ تک پہنچا دیتی ہے۔ (مصباح التعرف، 202)
متعلق فعل
١ - بے حد، ازحد، نہائیت (برائے کثرت)
 منظور حق ہوا کہ ہو بے پردہ قتل عام کھینچی نہ تیغِ قہر بنایا حسین تجھے      ( ١٨٧٠ء، دیوان اسیر، ٢٦٥:٣ )
٢ - بڑے غضب کا، قیامت کا۔
 صابر کو بردباد سمجھ کر نہ چھیڑیے کہتے ہیں قہر ہوتا ہے غصہ حلیم کا      ( ١٨٨٢ء، صابر، ریاض صابر، ٩ )
٣ - بڑے غضب کی بات، غضب، ظلم، ستم۔
 کیا قہر ہے و قفہ ہے ابھی آنے میں ان کے اور دم میرا جانے میں تو توقف نہیں کرتا      ( ١٨٥٤ء، دیوانِ ذوق، ٧٩ )
١ - قہر نازل ہونا
ناگہانی مصیبت سے واسطہ پڑنا، سابقہ ہونا۔"اسی لیے تو یہ قہر نازل ہو رہا ہے۔"      ( ١٩٦٨ء، غالب، نذیر محمد خان، ٧٠ )
١ - قہر ٹوٹے
(بددعا) خدا کا عذاب نازل ہو، آفت آئے، مرے۔ نہ کسی نے مجھے لوٹا نہ کسی نے مارا قہر ٹوٹے دل مضطر پہ اسی نے مارا      ( ١٩٣٦ء، شعاع مہر، نارائن پرشاد ورما، ٢١١ )