آفت

( آفَت )
{ آ + فَت }
( عربی )

تفصیلات


اوف  آفَت

یہ اصلاً عربی زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں اصل معنوں اور اصلی حالت میں ہی مستعمل ہے۔ ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق ہے۔ اردو زبان میں بطور اسم اور گاہے بطور صفت اور گاہے بطور متعلق فعل بھی مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٣٥ء میں "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مؤنث - واحد )
جمع   : آفَتیں [آ + فَتیں]
جمع استثنائی   : آفات [آ + فات]
جمع ندائی   : آفَتو [آ + فَتو]
جمع غیر ندائی   : آفَتوں [آ + فَتوں]
١ - تیز و طرار، چالاک، شاطر۔
 کتنی آفت ہے تو بھی اور بد ذات پیش بندی کی خوب یاد ہے گھات      ( ١٨٥٧ء، بحرالفت، واجد علی شاہ، ٢٠ )
٢ - غضب کا، بلا کا۔
 سیہ انگے جانے کوں رہ تنگ تھا جو پیٹ کے پچھیں آفت جنگ تھا      ( ١٦٤٩ء، خاورنامہ، ٦٠٤ )
متعلق فعل
١ - بہت، نہایت، حد درجہ
 فتنہ انگیز اور آفت شوخ بچی خیرن کی ہے قیامت شوخ      ( ١٨٧٩ء، جان صاحب، ١٣١:١ )
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : آفَتیں [آ + فَتیں (یائے مجہول)]
جمع استثنائی   : آفات [آ + فات]
جمع ندائی   : آفَتو [آ + فَتو (واؤ مجہول)]
جمع غیر ندائی   : آفَتوں [آ + فَتوں (و مجہول)]
١ - مصیبت، تکلیف، زحمت۔
"ان کے والد نے صاف انکار کر دیا اب میرا ایک ایک دن یہاں آفت ہے۔"      ( ١٩١٩ء، جوہر قدامت، ١٢٦ )
٢ - دکھ، درد، تکلیف، صدمہ
 عمر اہل تمنا نے کس آفَت میں بسر کی تھی شام کی امید نہ امید سحر کی      ( ١٩٤٠ء، بے خود موہانی، کلیات، ٥٨ )
٣ - ظلم، اندھیر۔
"یہ آفت کہیں نہیں دیکھی کہ جس کا حق مار لیں اسی کو آنکھ دکھائیں۔"      ( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ١١٤:١ )
٤ - بے تکا پن، بے ڈھنگا پن۔
"کیا آفت ہے صبح سے سر میں آنولے پڑے ہوئے ہیں نہانے کو جی نہیں چاہتا، جاؤ پہلے نہا لو۔"      ( ١٩٣٠ء، حیات صالحہ، ٢٦ )
٥ - [ مجازا ]  دشواری، مشکل، کشمکش۔
 میں اس کے لطف کا محتاج اور وہ مجھ سے مستغنی محبت کا برا ہو ڈال رکھا ہے کس آفت میں      ( ١٩٥٤ء، وحشت، دیوان اولین، ٢١٣ )
٦ - کسی چیز یا کیفیت کی شدت۔
 جہاں گئے اس برس جنوں میں چمن ہو یا دشت سب ڈبویا بھرا ہوا تھا کہاں کا دریا کہاں کی آفت تھی چشم تر میں      ( ١٩٢٧ء، شاد، میخانہ الہام، ١٩٣ )
٧ - جلدی، گھبراہٹ، پریشانی۔
 کہا سن کر زبانی حال قاصد سے یہ اس نے مصیبت کیا تھی آفت کیا تھی خط لکھا تو ہوتا      ( ١٨٤٩ء، کلیات ظفر، ٣:٢ )
  • چَیْن
  • شَرِیْف