گلا

( گَلا )
{ گَلا }
( سنسکرت )

تفصیلات


اصلاً سنسکرت زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں سنسکرت سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٠٣ء کو "نو سرہار" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : گَلے [گَلے]
جمع   : گَلے [گَلے]
جمع غیر ندائی   : گَلوں [گَلوں (و مجہول)]
١ - انسان یا جانور کی گردن کا اگلا حصہ، گلو۔
"اس کے گلے میں ابھی تک گٹار لٹک رہا ہے۔"    ( ١٩٨٧ء، سارے فسانے، ٢٤ )
٢ - گردن کے سامنے اور چہرے کا نچلا حصہ۔
 پان جب کھاتی وہ کافر دھان پان جلوہ گر ہوتا گلے سے رنگ پان    ( ١٨٢٨ء، مثنوی مہر و مشتری، ٨٣ )
٣ - حلق، نرخرا۔
"میری آواز مچھلی کے کانٹے کی طرح گلے میں پھنس گئی۔"      ( ١٩٨٧ء، شہاب نامہ، ١٣٨ )
٤ - کرتے یا اچکن وغیرہ کا چاک یا حلقہ جو گردن کے لیے بنایا جاتا ہے، گریبان کے اوپر کا حصہ نیز پورا گریبان۔
"ایک دن اورنگ زیب کے گلے کی گھنڈی پھنس گئی۔"      ( ١٩٦١ء، سنگم، ١٨٥ )
٥ - کسی ظرف مثلاً صراحی، گھڑے یا دیگچی وغیرہ کا وہ حصہ جو اس کے منھ اور پیٹ کے درمیان ہوتا ہے، گردن۔
"ایک دیگچے میں نصف سے کم پانی بھریں اور اس کے گلے میں ایک ستلی باندھ دیں۔"      ( ١٩٣٥ء، کپڑے کی چھپائی، ١١ )
٦ - [ مجازا ]  آواز، لحن، سر۔
"فن کار . اس کا برش، قلم اور گلا حق و صداقت کا بول بالا کرتا ہے۔"      ( ١٩٩٣ء، جنگ، کراچی، ١٤، جنوری، ٣ )
  • The neck;  the front part of the neck;  throat;  gullet;  voice;  a tube;  funnel;  syphon