عذر

( عُذْر )
{ عُذْر }
( عربی )

تفصیلات


عذر  عُذْر

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بھی بطور اسم مستعمل ہے اور سب سے پہلے ١٦٥٧ء کو "گلشن عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - بہانہ، حیلہ، اعتذار، ٹال مٹول۔
"اگر اردو میں دشواری کو ایک عذر بنالے تو وہ بجز فارسی کے اور کسی زبان کی شاعری کا ترجمہ کرنے سے قاصر رہے گی۔"      ( ١٩٨٤ء، ترجمہ: روایت اور فن، ١٣٧ )
٢ - [ مجازا ]  انکار، اعتراض، چوں و چرا، انحراف۔
 جو خدا کا حکم ہے خوب ہے، مجھے توبہ کرنے میں عذر کیا مگر ایک بات ہے واعظا کہ بہار اب تو قریب ہے      ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ٦٤:٢ )
٣ - معقولِ سبب، جواز شرعی، حجت۔
"روزے سے چھوٹ نہ مرد کو ہے نہ عورت کو، جو عذر ہو سکتے ہیں ان کی تفصیل بنادی گئی ہے۔"      ( ١٩٨٤ء، طوبٰی، ٦٧٩ )
٤ - معذرت، طلبِ معافی نیز توبہ۔
"تم کیوں عذر معذرت کرو تم نے تو میرے سر سے ایک بوجھ ہٹا دیا۔"      ( ١٩٦٨ء، غالب، ٨١ )
٥ - استدلال، توجیہ۔
"کوئی ثبوت لیے بغیر تصور کر لیا جائے گا کہ شطرنج کھیلی گئی کوئی عذر تسلیم نہ کیا جائے گا۔"      ( ١٩٣٣ء، طنزیات و مصحکات، ٢٠٠ )
٦ - [ فقہ ]  عذر اوس کو کہتے ہیں کہ اگر مستاجر اجارہ کو باقی رکھے تو ایسا نقصان اوس کا ہوتا ہے جو عقد اجارہ سے اوس پر لازم نہیں ہوا تھا۔ (نورالہدایہ، 16:4)
١ - عذر پیش کرنا
معذرت کرنا، کوئی دلیل یا حجت لانا۔"(ام سلمہ) . نے چند عذر پیش کیے. آنحضرتۖ نے ان سب زحمتوں کو گوارہ کیا۔"      ( ١٩١٤ء، سیرۃ النبی، ٤١١،٢ )
٢ - عذر قبول کرنا
عذر کو قبول کر لینا، معذرت کو تسلیم کر لینا۔"ہر چند عذم کرتا ہوں قبول نہیں کرتے۔"      ( ١٩٢٩ء، تاریخ نشر اردو، ٦٠٦:١ )
  • Excuse
  • apology
  • plea;  pretext;  objection