دشوار

( دُشْوار )
{ دُش + وار }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد ہے۔ اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔ اردو میں بطور اسم صفت اور متعلق فعل استعمال ہوتا ہے قدیم اردو میں بطور اسم بھی مستعمل ملتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٤٩ء کو "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - سختی، رکاوٹ، دقت، صعوبت۔
 ہوا تجھ تھے حیدر خبر دار بھی لیاوے گا تجھ اوپر دشوار بھی      ( ١٦٤٩ء، خاور نامہ، ٥٢٩ )
٢ - پہاڑی علاقہ۔ (جامع اللغات)
صفت ذاتی
١ - کٹھن، مشکل، محنت، طلب۔
"بات چیت کے انداز میں ادبی نثر لکھنا . دشوار ہے۔"      ( ١٩٨٣ء، بزم خوش نفساں، ٣٣ )
٢ - ناگوار، دوبھر
 اس درجہ محو لذت آزار ہو گیا احساس درد بھی مجھے دشوار ہو گیا      ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٣٢ )
متعلق فعل
١ - مشکل سے، تکلیف کے ساتھ۔
"محض ہائی پرفائن کمپوننٹوں کا گننا تک بہت دشوار ہوتا ہے۔"      ( ١٩٧٣ء، نکلیائی طاقتیں، ٧٠ )