قیامت

( قِیامَت )
{ قِیا + مَت }
( عربی )

تفصیلات


قوم  قِیامَت

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے اردو میں حقیقی حالت میں داخل ہوا اور بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٤٢١ء کو "معراج العاشقین" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - برائے اظہار کثرت، بہت، بدر جہ غایت، ازحد، کمال۔
 چھڑایا دم زدن میں دِل کو فکر شادی و غم سے قیامت پرُ اثر تھا جلوۂ حیرت نواز اس کا      ( ١٩٥١ء، کلیات حسرت موہانی، ٧ )
٢ - (تعریف مبالغہ یا تعجب ظاہر کرنے کے لیے) بے ڈھب، بے طرح۔
 پیڑوں کی قبا ہی تھی قیامت اور اس پہ بہار کی تراشیں    ( ١٩٧٧ء، خوشبو، ٣٠٠ )
٣ - غضب کا۔
 وہ آنسو باوجود ضبط جو نکلے قیامت تھے غم طولانی دِل کو بشکل مختصر دیکھا    ( ١٩٥٠ء، ترانہ وحشت، ٣٠ )
٤ - چلبلا، چنچل، نہایت شوخ۔
٥ - فتنہ انگیز، فتنہ پرداز، آفت کا پر کالہ۔
"ادھر عالمگیر بھی قیامت تھے انہوں نے پہلے ہی پٹی پڑھادی تھی کہ سپاہیانہ پیچوں میں کسی طرح دریغ نہ کرنا۔"      ( ١٨٨٤ء، قصص ہند، ١٥٢:٢ )
٦ - فساد کی جڑ، فسادی۔ (فرہنگ آصفیہ)
٧ - کٹھن، دشوار، بھاری، اجیرن۔
"تمہارے لیے وقت کاٹنا قیامت نہ ہو جائے گا۔"      ( ١٩٢٢ء، انار کلی، ٤٣ )
٨ - بڑا، زشت، قبیح۔ (فرہنگ آصفیہ)
٩ - ضرر رساں، مضر۔
 گماں مجھ پر ہے اوس کو داد خواہی سے شکایت کا قیامت ہو گیا حق میں مرے آنا قیامت کا      ( ١٨٧٩ء، کلیات سالک، ٣٥ )
١٠ - نامناسب، ناگوار طبع، بے جا، غضب ناک آگ بگولہ۔ (فرہنگ آصفیہ)
اسم معرفہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : قِیامَتیں [قِیا + مَتیں (یائے مجہول)]
جمع غیر ندائی   : قِیامَتوں [قِیا + مَتوں (واؤ مجہول)]
١ - کھڑے ہونا، وہ وقت یا دن جب مردے زندہ ہو کر کھڑے ہوں گے، یوم حشر، رستخیز، یوم الحساب۔
"نبوت، قرآن، قیامت اور معجزات پر اعتراضات کے جوابات۔"      ( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبیۖ، ٤٠٩:٣ )
٢ - سب کے مرنے اور نیست و نابود ہونے کا دن۔
"کبیشر کہتا ہے کہ چتوڑ میں پرے (قیامت) آگیا تھا۔"      ( ١٨٩٧ء، تاریخ ہندوستان، ٥، ٣٧٤:١ )
٣ - اختتام عالم تک کا وقفہ، مدت دراز، طویل زمانہ۔
 ناز اس کے ناز پر ہے غیر پر تفصیر کو کھنچتے کھنچتے اک قیامت چاہیے شمشیر کو      ( ١٨٧٧ء، دیوان انور دہلوی، ٨٧ )
٤ - بلا، آفت، مصیبت، انوکھی بات، امر عجیب۔
 بخش دیتی ہے نئی زیست تمہاری ٹھوکر چال چلتے ہو بلا کی یہ قیامت کیا ہے      ( ١٩٧٥ء، صد رنگ، ١٢١ )
٥ - قہر، غضب، ستم، ظلم۔
 دل بہلنے کا نکلتا ہے جو پہلو کوئی کیا قیامت ہے کہ دل اور بھی گھبراتا ہے    ( ١٩٣٨ء، عرش و فرش، ١٥ )
٦ - فتنہ انگیز بات، ہنگامہ، ہنگامہ خیز امر یا معاملہ۔
 کس لیے میں قدو قامت کو قیامت نہ کہوں کس جگہ حشر تری چال سے برپا نہ ہوا    ( ١٨٧٥ء، دیوان یاس، ١٦ )
٧ - غصہ، خشم۔ (فرہنگ آصفیہ، مہذب اللغات)
 طفلی میں کہتے تھے سب مجھ کو کہ یہ قیامت عاشق مزاج ہو گا، جیتا اگر رہے گا      ( جرأت، کلیات، ٢٠٤:١ )
٨ - اضطراب، بے چینی، اضطرار۔
 حضرت کا عشق اور پھر اس پر یہ اضطراب یہ دل نہیں ملا ہے قیامت عطا ہوئی      ( ١٩١٩ء، دوشہوار بیخود، ٨٨ )
٩ - واویلا، آہ و زاری، غل غپاڑہ، ہلچل نیز ہنگامہ، شورش۔
 تِر بھر ہوا لشکر وہ صف اس جا تھی یہ اس جا آفت تھی نہ کس صف میں قیامت تھی نہ کس جا      ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ١٢٩:١ )
١٠ - ناانصافی، اندھیر، زیادتی۔
 متفعل پھر نہیں ہوتے یہ قیامت دیکھو شرم سے اوٹ میں دشمن کی چھپے جاتے ہیں      ( ١٩١١ء، دیوان ظہیر دہلوی، ٩٠:٢ )
١١ - کلمۂ تاسف، افسوس، دریغ، حیف۔ (فرہنگ آصفیہ)
١٢ - [ تصوف ]  قیامت سے مراد ہے جملہ اسماء و صفات کا شہود ذاتی جو ازل سے ہو رہا ہے۔ (مصباح التعرف، 202)