صرف

( صَرْف )
{ صَرف }
( عربی )

تفصیلات


صرف  صَرْف

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مصدر ہے۔ عربی سے من و عن اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم نیز بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - [ مجازا ]  مصروف، مشغول۔
 میں رہا صرف شب وادی وحشت اختر میرے عالم میں نہ تھی صبحِ گلستان کوئی      ( ١٩٤١ء، انوار (علی اختر)، ١٠٧ )
اسم معرفہ ( مؤنث - واحد )
١ - [ قواعد ]  وہ علم جس میں کلمے کی اصل، اشتقاق اور اعراب وغیرہ سے بحث کی جاتی ہے، وہ علم جو الفاظ کی ساخت سے بحث کرتا ہے، فعل کے صیغوں کی گردان نحو کی ضد۔
"صوتیات اور صرف کے نئے تصورات نے اس علم کو انقلاب آفرین بنا دیا ہے۔"      ( ١٩٨٨ء، اردو نامہ، لاہور، جون، ٦ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - خرچ، استعمال، خرچ کرنا یا ہونا (آمدنی کی ضد)۔
"انسان اپنی طلب اور خواہش کو صرف کے ذریعہ مطمین کرنا چاہتا ہے۔"    ( ١٩٨٤ء، جدید عالمی معاشی جغرافیہ، ٧ )
٢ - تمام، ختم، بسر۔
"راقم الحروف کا زمانۂ حوالات اسی قسم کے افسانوں کی سماعت میں صرف ہوا۔"    ( ١٩٠٨ء، قید فرنگ، ٤٧ )
٣ - خرچہ، مصارف، لاگت۔
"امور بیگ نے یورپ کی سرزمین پر قدم جمانے کی کوشیش پھر جاری کر دیں مگر آدمیوں اور جہازوں کے صرف کے باوجود وہ کامیاب نہ ہو سکا۔"      ( ١٩٦٨ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٥٢٦:٣ )