دودھ

( دُودھ )
{ دُودھ }
( پراکرت )

تفصیلات


پراکرت زبان سے اردو میں داخل ہوا، سنسکرت زبان میں اس کو 'ڈگدھ' کہتے ہیں۔ اردو میں سب سے پہلے ١٥٩٣ء کو "آئین اکبری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : دُودھوں [دُو + دھوں (و مجہول)]
١ - بچہ جننے والی مادہ (حیوان یا انسان) کے جسم کا سفید رنگ کا سیال مادہ جو بچے کی خوراک کے لیے ایک خاص مدت تک چھاتی یا تھن میں پیدا ہوتا رہتا ہے۔
"بازاری دودھ یا اوپر کا دودھ کسی حالت میں بھی ماں کے دودھ کے برابر نہیں ہو سکتا۔"      ( ١٩٧٠ء، گھریلو انسائیکلوپیڈیا، ٢١٨ )
٢ - عورت کی چھاتی، پستان۔
"اے اللہ میری بچی کو جلا دے پرسوں کیسی بلک رہی تھی مگر منہ میں دودھ لیتے ہی چپکی ہو گئی۔"      ( ١٩١٧ء، طوفان حیات، ٣٤ )
٣ - کسی اناج وغیرہ سے تیار کیا ہوا سفید محلول؛ بنولے کا ست۔
"سات سہاگنوں نے آٹے کا دودھ پان سے زچہ کے سر پر ڈالا۔"    ( ١٩٦٧ء، اردو نامہ، کراچی، ١١١:٢٩ )
٤ - کچے ناریل کا پانی
"ناریل کے پھوک میں باقی پانی ڈال کر . تاکہ جو دودھ پھوک میں رہ گیا ہو وہ بھی نکل آئے۔"    ( ١٩٤٤ء، ناشتہ، ٢١ )
٥ - درخت یا پودوں کا عرق، اصلی ست۔
"یہ خلیات لمبے نالی نما شاخدار ہوتے ہیں . ان میں دودھیا رنگ کا عرق ملتا ہے، جس کو دودھ کہتے ہیں۔"      ( ١٩٦٤ء، ابتدائی نباتیات، ١٦٧ )
٦ - [ مجازا ]  روشنی، اجالا۔
 نچھل چند ناسب میں پڑتا اتھا سوجیوں دودھ کیرا ود دریا اتھا      ( ١٦٢٥ء، سیف الملوک و بدیع الجمال، ٣٤ )
  • Milk;  the milk or juice of certain plants;  family
  • race
  • caste
  • sect.