ڈھب

( ڈَھب )
{ ڈَھب }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم ہے جو اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٧٥٩ء کو "راگ مالا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - ڈھنگ، روش، طریقہ۔
"فلسفہ زندگی بسر کرنے کا ایک ڈھب ہوتا ہے۔"      ( ١٩٨٦ء، فیضانِ فیض، ١٦٨ )
٢ - طور، طرح (عموماً لفظً "سے" کے ساتھ مستعمل)۔
"شکیل عادل زادہ نے اس ڈھب سے بات کی کہ میں نے سنجیدگی سے سوچا کہ اپنی مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر ناول پر کام شروع کر دینا چاہیے۔"      ( ١٩٨٦ء، جانگلوس، ٦ )
٣ - وضع، انداز، طرز۔
 ڈھب ہیں تیرے سے باغ میں گل کے بو گئی کچھ دماغ میں گل کے      ( ١٨١٠ء، کلیاتِ میر، ٢٩١ )
٤ - اہلیت، قابلیت، موزونی۔
 ہمارے کام میں دیتے کبھی مدد اے شاد ملے نہ ہم کو زمانے میں لوگ اس ڈھب کے      ( ١٩٢٧ء، شاد عظیم آبادی، میخانہ الہام، ٣٥٩ )
٥ - قاعدہ، اصول، طریقہ، ضابطہ۔
"تینوں زبانیں (فارسی، اردو، عربی) دائیں کو بالکل ایک ہی ڈھب سے لکھی جاتی ہیں۔"      ( ١٩٧٦ء، ہندی اردو تنازع، ٣٤٠ )
٦ - صُورت، تدبیر، موقع۔
 افسوس کچھ نہ میری رہائی کا ڈھب ہوا چھوٹا اِدھر قفس سے اُدھر میں طلب ہوا      ( ١٨٧٢ء، مظہر عشق، ١٥ )
٧ - سلیقہ، مہارت۔
"ناول نگار نے زندگی کے جتنے رخوں کو جس فنکارانہ ڈھب سے ایک مخصوص زاویہ دیا ہے وہ ہمارے ناولوں کی یک پہلو کردار نگاری سے ذرا مختلف چیز ہے۔"      ( ١٩٧٠ء، برش قلم، ٩٦ )
٨ - پسند
"وہ جو کچھ بھی ہیں آدمی اس درد سر میں ہمارے ڈھب کے حکیم ثابت ہوں گے۔"      ( ١٩٨٦ء، جوالہ مکھ، ١٦٠ )
٩ - عادت، لپکا، سبھاؤ، جیسے: دن کے سونے کا تمہیں برا ڈھب پڑ گیا۔ (فرہنگ آصفیہ)
١٠ - ربط، میل۔
 بتوں سے ڈھب نہ حُوروں تک رسائی ادھر کا ہے نہ یہ زاہد اُدھر کا      ( ١٨٩٩ء، دیوانِ ظہیر، ٤٨:١ )
١١ - راستہ، ذریعہ۔
 تھے غم جہاں کے تیور کہ ڈرو مرے غضب سے غم عشق کھینچ لایا مجھے دوستی کے ڈھب سے      ( ١٩٨١ء، حرفِ دل رس، ٥٩ )
١٢ - بتوڑی۔ (پلیٹس)
  • shape
  • form
  • fashion;  mode
  • manner;  knack;  habit