کشت

( کِشْت )
{ کِشْت }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع غیر ندائی   : کِشْتوں [کِش + توں (واؤ مجہول)]
١ - کھیت، کھیتی، بویا ہوا کھیت، زراعت۔
 ہماری کشت پر نم تھی مگر دوچار قسطوں میں غٹاغٹ پی گئے ہم آپ ہی ساری نمی اپنی      ( ١٩٨٧ء، ضمیریات، ٣٢ )
٢ - [ شطرنج ]  شطرنج کے شاہ کا ایسے خانہ میں ہونا کہ اگر اس جگہ دوسرا مہرہ ہوتا تو مارا جاتا، شہ، بادشاد پرزد۔
 ہر ایک سمت سے پڑتی ہے کشت و شہہ مجھ کو سلیم خانۂ شطرنج میں مکیں ہوں میں      ( ١٩٨٣ء، سلیم احمد، اکائی، ١٥٤ )
٣ - [ حیاتیات ] جراثیم پروردہ، وہ امتحانی نلی جس میں زندہ خلیوں کو غذائی محلول کی موجودگی میں اگایا جاتا ہے۔
"اس آلے کو خردبین کے ساتھ ہم آہنگ کیا جاتا ہے تاکہ دونوں کی مدد سے ایک خلیے کو کشت سے علیحدہ کیا جاسکے۔"    ( ١٩٦٧ء، بنیادی خرد حیاتیات، ٤٤٠ )
٤ - [ حیاتیات ] کیڑوں یا جانداروں کی بستی (جیسے: مونگے میں) (انگ: Colony)۔
نر اور مادہ (مثبت اور منفی) بذروں سے نمو پا کر کشت بناتے ہیں۔"    ( ١٩٦٧ء، بنیادی خرد حیاتیات، ٨٨ )
  • tillage
  • cultivation;  a sown field;  division of a crop (as it lies in the field after being cut;  (in chess) check (to the king).