کمال

( کَمال )
{ کَمال }
( عربی )

تفصیلات


کمل  کَمال

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے "قدیم اردو" کے حوالے سے ١٦٤٠ء میں "کشف الوجود" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
جمع   : کَمالات [کَما + لات]
١ - ہنر، خاص خوبی یا وصف، جوہر، لیاقت۔
"اس کا کمال ہی یہ ہے کہ دولت کی فراوانی میں بندہ صرف اللہ کے لیے فقر و غنا اختیار کرے۔"      ( ١٩٨٤ء، طوبٰی، ١٨٨ )
٢ - کرتب، اعجاز، کرشمہ۔
 کیا ہے کس نے اشارے سے چاند دو ٹکڑے کہو فلک سے کہ دیکھے کمال احمدۖ کا    ( ١٩٢٧ء، معراج سخن، ٣ )
٣ - حیرت انگیز بات، انوکھی بات۔
"میں نے اس دن کی روداد بیان کرنا شروع کی، رحمٰن کیانی حیرت زدہ سنتے رہے، سر ہلاتے رہے، آخر میں کہنے لگے، بالکل صحیح، کمال ہے کہ آپ کو پوری تفصیل یاد ہے۔"    ( ١٩٩٠ء، قومی زبان، کراچی، مارچ، ١٠ )
٤ - تکمیل، عروج، انتہا، تمام۔
"کمال کے معنی تمام ہونے کے ہیں۔"      ( ١٩٣٩ء، میزان سخن، ٩٨ )
٥ - [ فلسفہ ]  جب تک کوئی چیز قوت سے فعل میں نہیں آتی عرض کہی جاتی ہے اور جب قوت سے فعل میں آجاتی ہے تو اس کو کمال کہتے ہیں۔
"جو چیز اسے بالفعل حاصل ہو جاتی ہے، وہ کمال کہلاتی ہے۔"      ( ١٩٠٠ء، علوم طبیعیۂ شرقی کی ابجد، ٣٨ )
صفت ذاتی
١ - بہت زیادہ، نہایت، انتہا درجے کا، پوری طرح۔
"یہ پہلی کتاب ہے جو دہلی کی عمارات پر کمال تحقیق اور غیرمعمولی محنت اور صحت سے لکھی گئی ہے۔"      ( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ٢٧٩ )