اسلوب

( اُسْلُوب )
{ اُس + لُوب }
( عربی )

تفصیلات


سلب  اُسْلُوب

عربی زبان سے اسم مشتق ہے ثلاثی مجرد کے باب سے ماخوذ ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٣٩ء کو "کلیات سراج" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : اُسْلُوبوں [اُس + لُو + بوں (و مجہول)]
١ - انداز، وضع، ڈھنگ، روش، طور، طرز۔
 سمیٹیں گے متاع دین و دنیا اپنے دامن میں یہ اسلوب مناسب اتحاد جسم و جاں ہو گا      ( ١٩٣١ء، بہارستان، ظفر علی خاں، ٦٠١ )
٢ - ترتیب، انتظام، سلیقہ۔
"تین بجے سے ذرا پہلے تمام لوگ بہ اسلوب بیٹھ گئے۔"      ( ١٩٠٨ء، مقالات شبلی، ٨٩:٨ )
٣ - روش، تحریر، انداز نگارش، (انگریزی) اسٹائل۔
"قرآن مجید نے بلاغت کے لیے کیا کیا اسلوب پیدا کیے۔"      ( ١٩٠٤ء، مقالات شبلی، ٢٥:١ )
٤ - راہ، صورت۔
 صاف باطن میں جو مجھ سے مرا محبوب نہیں میرے جینے کا بظاہر کوئی اسلوب نہیں      ( ١٨٤٦ء، دیوان مہر (آغا علی)، ٥٥ )
٥ - [ منطق ]  دلیل منطقی کی سولہ مقرر اشکال میں سے ہر ایک شکل۔
"منطق کے چار حصّے کیے گئے - نظریات : تصور، تصدیق، استدلال و اسلوب۔"      ( ١٩٢٩ء، مفتاح الفسلفہ، ٥١ )
  • Order
  • arrangement;  manner
  • mode
  • method;  course
  • way
  • manner of acting or conduct;  form
  • figure
  • shape