فاتحہ

( فاتِحَہ )
{ فا + تِحَہ }
( عربی )

تفصیلات


فتح  فاتِحَہ

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے اردو میں اپنے اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٦٢٨ء کو "چندر بدن و مہیار" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
١ - آغاز، ابتدا، کشایش۔
"فاتحہ سلطنت سے خاتمہ تک بہت ہی کم سال ایسے ہونگے جن میں اوس نے سفر نہ کیا ہو۔"      ( ١٩٧٩ء، تاریخ ہندوستان، ٣٣٤:٤ )
٢ - قرآن مجید کی پہلی صورت "الحمد" کا نام۔"
"دیا ہم نے تم کو قرآن عظیم اس مراد فاتحہ ہے چونکہ یہ قرآن کا جزوِ اعظم ہے۔"      ( ١٩٨٤ء، اسلامی انسائیکلوپیڈیا، ١١٣٢ )
٣ - مُردے کی رُوح کو ثواب پہنچانے کے لیے سورۂ حمد سورۂ اخلاص وغیرہ مع درود شریف تلاوت کرنے کا طریقہ یا رسم یا تقریب۔
"نہ کفن دفن کی نوبت آتی تھی اور نہ جنازے اور فاتحہ کی باری۔"      ( ١٩٨٢ء، آتشِ چنار، ٣٧ )
٤ - وہ نظم جو مجالس عزا کے خاتمے پر طلب خیر کے لیے پڑھی جاتی ہے انکے خاتمے پر مجالس کا پڑھنے والا "فاتحہ" کہتا ہے تو حاضرین سورۂ حمد وغیہ برائے ایصال ثواب پڑھتے ہیں اسی وجہ سے اس نظم کا نام فاتحہ ہو گیا۔
"کلیات فارسی میں نوح اور فاتحہ کے قطعے اب اسکا بین ثبوت ہیں کیونکہ مجالس کے اختتام پر اس قسم کے اشعار فاتحہ پڑھے جاتے ہیں۔"      ( ١٩٦٢ء، غالب کون ہے، ٥٢ )
  • Commencement
  • exordium