دعا

( دُعا )
{ دُعا }
( عربی )

تفصیلات


دعا  دُعا

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مجرد کے باب سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ملتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو حسن شوقی کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : دُعائیں [دُعا + ایں (یائے مجہول)]
جمع غیر ندائی   : دُعاؤں [دُعا + اُوں (و مجہول)]
١ - اللہ سے مانگنا، طلب، التجا، عرض، پکار۔
 روشن و رخشاں رہے پرچم نجم و ہلال لم یزل ولایزال میری ہے تجھ سے دعا    ( ١٩٨٤ء، سمندر، ١٧ )
٢ - وہ آیتیں یا دعائیں جو اللہ تعالٰی سے التجا کے لیے پڑھی جائیں۔
"ان کا (دشمنوں کا) سحر باطل کرنے اور مقاصد دینی و دنیوی پورا ہونے کے لیے یہ دعا (دعائے سبا سب) مجرب ہے۔"    ( ١٩٧٣ء، رام راج، ٣٥ )
٣ - کسی کے حق میں کلمہ خیر، خلوص و نیک تمناؤں کا اظہار۔
 دعا کی نہر میں مایوسیوں کی ریت بھری زبان خواب فقط آبلوں کا صحرا تھا    ( ١٩٨١ء، ملامتوں کے درمیان، ٤٥ )
٤ - [ خطوط نویسی ] وہ کلمہ جو چھوٹے کو خط میں القاب یا نام وغیرہ کے بعد سلام کی جگہ لکھا جائے، جیسے! جیتے رہو، خوش رہو وغیرہ۔
"دعا وہ لفظ ہے جو القاب اور نام یا خطاب کے بعد لکھا جاتا ہے۔"    ( ١٨٦٩ء، انشائے خرد افروز، ٧ )
٥ - [ نحو ]  جملہ انشائیہ کی ایک قسم۔
"محبت و عداوت . تاسف و پشیمانی، خواہش و غضب اور اس کے تعبیرات امر و نہی و دعا و استفہام اور انشا کے تمام اقسام ہر شخص کے کلام میں برجستگی اور روانی کے موجد ہیں۔"      ( ١٩١٦ء، نظم طبابائی (مقدم)، و )
٦ - خواہش، مراد؛ مبارک؛ سلام۔ (جامع اللغات)
٧ - [ طنزا ]  بد دعا، کو سنا، برے الفاظ زبان پر لانا۔
 اب ہمیں ہیں کہ گرفتار مصیبت ہیں سدا عشق کی جان کو بیٹھے ہوئے کرتے ہیں دعا      ( ١٨٥٨ء، امانت، و اسوخت، ١٨٦ )