انتظام

( اِنْتِظام )
{ اِن + تِظام (کسرہ ت مجہول) }
( عربی )

تفصیلات


نظم  نَظْم  اِنْتِظام

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٦٧٨ء کو "کلیات غواصی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : اِنْتِظامات [اِن + تِظا (کسرہ ت مجہول) + مات]
١ - بندوبست، نظم و نسق، اہتمام۔
"یہاں نقاش جادو کہ میلے میں اسی کا نتظام ہے دوکانیں جا بجا درست کرارہا ہے۔"      ( ١٩٠٢ء، طلسم نوخیز جمشیدی، ٣١٨:٣ )
٢ - ترتیب، درسی، آراستگی، تیاری، سرانجام۔
"اس کے انتظام کی ہم لوگوں کو فکر کرنی چاہیے۔"      ( ١٩١١ء، روز نامۂ سفر، حسن نظامی، ١١٧ )
٣ - ضابطۂ عام، مسلم طریقہ اور اصول۔
"مذہب پر سے اس الزام کے اٹھانے کو ہم دنیا کے انتظام پر نظر کرتے ہیں۔"    ( ١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ٢٦٢:٣ )
٤ - طریق کار۔
"انسانی جوابی عمل کی پیمائش کے لیے ایک وہ انتظام ہے جس کی تصویر شکل ٢٣ میں دی گئی ہے۔"    ( ١٩٦٩ء، نفسیات کی بنیادیں، ٦ )
٥ - نظام سلطنت، عملداری۔
"ملک امریکہ کی طرح مختلف ریاستوں میں تقسیم ہوا ایک انتظام کے تحت میں رہا۔"      ( ١٩٢٠ء، اردو مصحفی، عبد الحق، ٢٩ )
٦ - ایک لڑی میں پرویا جانا، تسلسل۔
 رونے کا تار باندھ تفرج نہیں ہے خوب ہے آنسووں کا سلک گہر کا سا انتظام      ( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ١١٨٦ )