میزان

( مِیزان )
{ می + زان }
( عربی )

تفصیلات


وزن  مِیزان

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی اور ساخت کے ساتھ بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٦٦٥ء کو "علی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : مِیزانیں [می + زا + نیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : میزانوں [می + زا + نوں (و مجہول)]
١ - ترازو، دو پلڑوں والا وزن معلوم کرنے کا آلہ، تکڑی، تلا۔
"آزمائش کی میزان میں تلنے کیلئے رکھ دی جاتی ہے۔"      ( ١٩٩٠ء، معراج اور سائنس،١٦١ )
٢ - [ اسلامیات ]  وہ پیمانے جن پر قیامت کے دن انسان کے اعمال کو تولا جائے گا اور ان کے مطابق جزا سزا دی جائے گی۔
"میزان ایک اصطلاح جو اسلام میں روز محشر کو اعمال کو جانچ کے بارے میں استعمال ہوئی ہے۔"      ( ١٩٨٤ء، اسلامی انسائیکلوپیڈیا، ١٣٩٦ )
٣ - [ فلکیات ]  آسمان کے ساتویں برج کا نام۔
"میزان کے آٹھ ستارے ہیں جو ایک ترازو کی شکل میں ہیں۔"      ( ١٩٦٨ء، بلوغ الارب،٣٠٥:٤ )
٤ - [ فلکیات ]  آسمان کے ساتویں بُرج کا نام۔
"میزان کے آٹھ ستارے ہیں جو ایک ترازو کی شکل میں ہیں۔"      ( ١٩٦٨ء، بلوغ الارب، ٣٠٥:٤ )
٥ - [ ریاضیات ]  جمع، جوڑ، مجموعہ، ٹوٹل، حساب۔
"صوبائی محکموں کے متعلق وصول ہونے والی شکایات کی تعداد میزان کا ٢٥ فیصد ہے۔"      ( ١٩٩٠ء، وفاقی محتسب کی سالانہ رپورٹ، ٤٢٢ )
٦ - پیمائش، عمل تسطیح، سطح کی جانچ۔
"ہندسیاتی اعتبار سے مختلف سلسلوں کی میزان۔"      ( ١٩٥٧ء، مقدمہ تاریخ و سائنس (ترجمہ)، ٣٦١:١،١ )
٧ - عروض، قافیہ، بحر، نظم وغیرہ (پلیٹس)
٨ - تعداد (پلیٹس)
٩ - حکمت عمل، پالیسی۔
"چین کے خلاف ایک نءے عالمی اتحاد کی میزان تیار کی اور امریکہ کے ارادوں کے آگے بھی بند باندھ دیا۔"      ( ١٩٨٢ء، آتشِ چنار، ٦٧٢ )