مستعد

( مُسْتَعِد )
{ مُس + تَعِد }
( عربی )

تفصیلات


عدد  مُسْتَعِد

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق صفت ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع غیر ندائی   : مُسْتَعِدوں [مُس + تَعِدوں (و مجہول)]
١ - آمادہ، تیار، کمربستہ، ہر وقت حاضر۔
"متعلقہ موضوع پر آگے کام کرنے میں ان کا ذہن مستعد ہو جائے۔"    ( ١٩٩٤ء، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، حیات و خدمات، ٦١٤:٢ )
٢ - موجود، حاضر، مہیا۔
 جنازا مستعد اوس کا ہوا جب نماز اوس کے جنازے پر کیے سب    ( ١٦٨٨ء، کفن چور (ق)، ٢ )
٣ - تیز، ہوشیار، چالاک۔
 ہنگام اوچھا ہو کہ چوکس سنجیدے گنونتے میں فکر کر دیکھا تو ہیں مستعد ہر فن میں تمھیں      ( ١٦٩٧ء، ہاشمی، دیوان، ١٧٥ )
٤ - چست، پھرتیلا، چاق و چوبند۔
"معلم اپنے پاس سے تنخواہ دے کر نوکر رکھے اور بہت سے طلبہ مستعد جمع کئے جن کو کھانا وہ اپنے پاس سے دیتے تھے۔"      ( ١٩٠٦ء، مخزن، ستمبر، ٢٩ )
٥ - سرگرم، چوکس۔
"اس میں شک نہیں کہ وہ اپنے کام میں بڑے مستعد، باقاعدہ اور کارگزار آدمی تھے۔"      ( ١٩٩٢ء، افکار، کراچی، مارچ، ٢٢ )
٦ - لایق، قابل، پڑھا لکھا، صاحب استعداد۔
"ان کے گرد سینکڑوں مستعد اور ذہین شاگردوں کے حلقے جمع ہو گئے۔"      ( ١٩٨٦ء، اقبال اور جدید دنیائے اسلام، ١٣٨ )
٧ - کیل کانٹے سے درست، لیس، (کنایہ) مسلح۔
"جگہ جگہ ٹڈی دل فوج ہتھیار سنبھالے مستعد کھڑی ہے۔      ( ١٩٨٩ء، معروف عورت، ١٣٨ )
٨ - طالب، شائق۔
 شب مہتاب میں سوتا ہے وہ مہتابی پر مستعد بوسہ ستانی کا ہر اک کو کب ہے    ( ١٨٢٤ء، مصحفی، دیوان (انتخاب رام پور)، ٣١٣ )
٩ - [ مجازا ] طالب علم، شاگرد۔
"جب ان کی سواری نکلتی تھی تو قریباً تین سو علما اور مستعدین رکاب کے ساتھ چلتے تھے۔"    ( ١٩٠٢ء، علم الکلام، ٧٠:١ )