موتی

( موتی )
{ مو(ومجہول) + تی }
( پراکرت )

تفصیلات


پراکرت زبان سے ماخوذ اسم ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی کے ساتھ عربی رسم الخط میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے١٥٠٣ء کو "نو سرہار" میں مستعمل ملتاہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : موتِیوں [مو (و مجہول) + تِیوں(ومجہول)]
١ - ایک سفید چمکدار گول دانہ جو سیپی میں نکلتا ہے بطور جواہر اور دواء مستعمل، روایت ہے کہ سمندر میں ایک قسم کا کیڑا ہوتا ہے جو اپنے رہنے کیلئے سیپی بناتا ہے اگر سیپی کے اندر ریت یا کسی اور چیز کا ذرہ داخل ہو جائے تو وہ اسے چبتھا ہے اس لئے یہ کیڑا اس پر اپنا لعاب دھن لگاتا رہتا ہے اور وہ ذرہ بڑا ہو کر موتی بن جاتا ہے، مروارید، گوہر، در، لولو
"کیا اب موتی کی تجارت کا ارادہ ہے"      ( ١٩٩٠ء، کالی حویلی، ٢٠٢ )
٢ - مصنوعی چمکدار دانے جو شیشے وغیرہ سے بنائے جاتے ہیں۔
"اس نے چھوٹے موتیوں کی ایک زنجیر دکھلا کر واپس نہیں لی"      ( ١٩٩٢ء، اختر حسین رائے پوری کے افسانے ٤٥ )
٣ - [ کنایۃ ]  ستارہ ( جو گول اور چمکدار ہوتا ہے)
"نہ جانے کتنے موتی، پھول اور ستارے افق در افق جگما رہے تھے"      ( ١٩٩٠ء، رئیس امروہوی من اور شخیصت، ٥٨ )
٤ - [ کنایۃ ]  آنسو
آنکھ ملانے سے وہ کتراتے ہیں کہ آنسوئوں کے وہ موتی جنہیں وہ کتنی دیر سے۔۔۔چھپائے بیٹھے ہیں کہ چھلک کر باہر نہ آجائیں۔      ( ١٩٩١ء، سفر گشت، سفر نامہ امریکہ، ٣٥٤ )
٥ - کتوں کا نام( جو اکثر لوگ رکھتے ہیں)
"لیکن اللہ کی قدرت وہ ان سے چھٹکارا پانا چاہتا ہے چنانچہ انہیں پچکار کر 'موتی موتی" کہتا ہے، مگر وہ اسکی ٹانگ ہی نہیں چھوڑتے"      ( ١٩٩٠ء، جررم ظریفی، ٥٧ )
٦ - [ کنایتہ ]  (حکمت و دانش کے) قول، اقوال زریں۔
"یہ ییغمبر کی شان ہے کہ وہ محض اور اسکی دوا ہی نہیں بتاتا بلکہ علاج کی پوری تفصیل بیان کر دیتا ہے اور حکمت و دانش کے موتی کسی اجر اور بدلے سے بے پروا ہو کر دنیا کے دامن میں ڈالتا جاتا ہے"۔      ( ١٩٨٨ء، انبیائے قرآن، ٧٧ )
٧ - قطرہ( پسینہ کا یا اوس وغیرہ کا، نہایت گول اور مدور چیز)
"وہ شبنم کے موتیوں سے تخیل کی لڑی پروتا ہے"      ( ١٩٩٠ء، سرودنو، ٤٥ )
٨ - شفاف، آبدار، بیش قیمت۔
 اس میں ذلیل ہوئیں گے دو چار جان لو موتی کی طرح رکھے خدا سب کی آبرو      ( ١٨٧٩ء، جان صاحب، ٢٩٤ )