گوہر

( گَوہَر )
{ گَو (و لین) + ہَر }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : گَوہَروں [گَو (و لین) + ہَروں (و مجہول)]
١ - موتی
"اثر آبلہ سے جادۂ صحرائے جنوں چراغاں نظر آتا ہے، مصور شاعر نے ہر آبلے کو گوہر اور اس کے نقش کو روشنی کی لکیر بنا دیا ہے۔"      ( ١٩٨٧ء، مرزا غالب اور مغل جمالیات، ٥٠ )
٢ - قیمتی پتھر جیسے یا قوت یا ہیرا وغیرہ۔
 حکایت عجب ایک بھی بولتا گویا کان گوہر کی ہے کھولتا      ( ١٩٦٧ء، اردو کی قدیم داستانیں، ٢٥٦:١ )
٣ - کسی شخص یا شے کی اصل، اصل نسل، مادہ، ماہیت، جوہر۔
"مرزا کے خاندان اور اصل و گوہر کا حال جیسا کہ انہوں نے اپنی تحریروں میں جابجا ظاہر کیا ہے یہ ہے۔"      ( ١٨٩٧ء، یادگار غالب، ٩٠ )
٤ - آدمی کی چھپی ہوئی خوبیاں، عقل و دانش، پوشیدہ صلاحیت، جوہر۔ (فرہنگ آصفیہ، نوراللغات، جامع اللغات)
٥ - تلوار کی آب یا جوہر، جوہر شمشیر۔ (فرہنگ آصفیہ، جامع اللغات)
٦ - بندا، گوشوارہ۔
 احمد نے دیا دختر کافر کو بھی زیور اور گوش سکینہ ہوئے زخمی پئے گوہر      ( ١٨٧٥ء، دبیر، دفتر ماتم، ١٧:١ )
٧ - [ کنایہ ]  بیٹا، فرزند۔ (فرہنگ آصفیہ، جامع اللغات)
٨ - [ کنایہ ]  شبنم۔
"گوہر ایک جسم بخاری ہے کہ ہوا کے سرد ہونے سے پیدا ہوتی ہے یہ . زمین کے قریب معلق رہتے ہیں۔"      ( ١٨٥٦ء، فوائد الصبیان، ٨٥ )
  • intimate relationship;  closeness