اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - ملائم ہونے کی حالت، ملائمت، نازکی، نزاکت۔
"وہ ایک مخصوص نظریہ رکھتے ہیں اور ہر بات بڑی نرمی، ملائمیت، خلوص اور دردمندی کے ساتھ کہتے ہیں"
( ١٩٩٧ء، کہتے ہیں تجھے (انتصنداں)، ١٧١۔ )
٢ - دھیماپن، آہستگی، رسانیت، حلم، بُردباری۔
"یہی سوچتے ہوئے میں نے نرمی سے کہا"
( ١٩٨٢ء، بند لبوں کی چیخ، ١٢٩۔ )
٣ - دھیما پن، آہستگی (چال وغیرہ میں)
وحشی آندھی سے بادل کی ناؤ یہ کہتی ہے دیکھو گہری ندی کس نرمی سے بہتی ہے۔
( ١٩٧٩ء، جزیرہ، ٥٨۔ )
٤ - گدگداپن، پلپلاپن۔
کبھی تو نے گالوں کی نرمی دکھائی لچک تو نے پتلی کمر کی دکھلائی
( ١٩٧٥ء، موجف تبسم، ٤٨٨۔ )
٥ - مہربانی، رحم دلی۔
"آپۖ نے فرمایاجو آدمی نرمی کی صفت سے محروم کیا گیا وہ سارے خیر سے محروم کیا گیا"
( ١٩٨٩ء، سیرۃ النبی اور ہماری زندگی، ٢٨٢۔ )
٦ - پیار، شفقت، محبت، گدازپن۔
"ان کی آنکھوں میں ایسی نرمی تھی کہ تمام تاثرات ہی بدل گئے"
( ١٩٨٩ء، یہ لوگ بھی غضب تھے، ١٦۔ )
٧ - سبک، لطافت، ہلکاپن۔
سلام ان پر ہے جن کے عزم کی سورج میں گرمی رُخِ گل پر محبت جن کی ہے شبنم کی نرمی
( ١٩٩٣ء، زمزمۂ اسلام، ١٥٤۔ )
٨ - سہولت، آسانی۔
اک چھوٹی سی دنیا جس کے دُکھ سُکھ بھی چھوٹے چھوٹے کچھ سختی میں کچھ نرمی میں ان کے دن کٹ جاتے تھے
( ١٩٦٢ء، لاحاصل، ٥٣۔ )
٩ - بُردباری، برداشت، تحمل، سہار۔
"طبیعت کی نرمی، تحمل اور ان کے قلب کی وسعت کا اندازہ کر لیجیے۔
( ١٩٨٦ء، دلی والے، ٣٠:٢۔ )
١٠ - خوشامد، چاپلوسی، کمی، تخیفیف۔ (جامع اللغات)
١١ - لوچ، مڑنے کی خاصیت، عجز، انکسار۔
"درد کے مزاج کی سادگی، پاکیزگی اور نرمی ان کی زبان میں صاف عیاں ہے"
( ١٩٩٥ء، نگار، کراچی، اپریل، ٤٠۔ )
١٢ - خوش گواریت، خوش مزاجی۔
"اب اس کی طبیعت میں نرمی دیکھیں اور مزاج خوش باتیں تو بن یامن کی درخواست کریں"
( ١٩٧٢ء، معارف القرآن، ١٢١:٥۔ )