موقوف

( مَوقُوف )
{ مَو (و لین) + قُوف }
( عربی )

تفصیلات


وقف  وَقْف  مَوقُوف

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اس مفعول ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور صفت نیز بطور اسم مذکر و مؤنث استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
جمع   : مَوقُوفات [مَو (و لین) + قُو + فات]
١ - ٹھہرایا، کھڑا کیا گیا۔ (جامع اللغات)
٢ - ملتوی کیا گیا، منسوخ کیا گیا، عارضی یا مستقل طور پر ترک یا منسوخ۔
"بیماری اور پیرانہ سالی کی وجہ سے وکالت موقوف تھی۔"      ( ١٩٩٩ء، قومی زبان، کراچی، جولائی، ١٩ )
٣ - ملازمت سے برطرف یا برخاست کیا ہوا، معطل کیا ہوا۔
"لے دے کے تمہارا ایک چچا دفعہ ٣٠ کا میجسٹریٹ تھا سو پچھلے سال سے موقوف ہو کر وہ بھی گھر آبیٹھا ہے۔"      ( ١٩٨٥ء، اڑتے خاکے، ٢٣ )
٤ - ملکیت سے خارج کرکے خدا کے نام پر کارخیر کے لیے چھوڑا ہوا (مال یا جائیداد)، وقف کیا گیا۔"
"زمین کو . موقوف کیا ہو موت پر مثلاً اگر میں مر جاؤں تو وقف کیا اوسکو۔"      ( ١٨٦٧ء، نورالہدایہ (ترجمہ)، ١٥:٢ )
٥ - [ مجازا ]  منحصر، مبنی، انحصار کیا گیا۔
"یہ اس کی مرضی پر موقوف ہے جو جاہے کرے۔"      ( ١٩٩٠ء، معراج اور سائنس، ١٠١ )
٦ - جسکی حد بندی کی گئی ہو، مقرر، معین، محدود۔
"کان چھدانے کے لیے کوئی خاص برس یا تعداد عمر موقوف نہیں۔"      ( ١٩٠٥ء، رسوم دہلی، سید احمد، ٣٨ )
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : مَوقُوفات [مَو (و لین) + قُو + فات]
١ - [ حدیث ]  وہ حدیث جسکا سلسلہ صحابی تک پہنچے۔
"جو حدیث نبیۖ تک پہنچے اسکو مرفوع کہتے ہیں اور جو صحابی تک پہنچے اسکو موقوف کہتے ہیں۔"     "حدیث مرفوع اور حدیث کا اطلاق تابعین اور تبع تابعین کے اقوال و افعال اور تقاریر پر بھی ہوتا ہے جسے محدثین حدیث موقوف اور مقطوع کہتے ہیں۔"      ( ١٦٤٢ء عبدالحق محدث دہلوی، مقدمۂ مشکوٰۃ شریف (ترجمہ)، ٧:١ )( ١٩٧٥ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٤٠٣:١١ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : مَوقُوفات [مَو (و لین) + قُو + فات]
١ - [ قواعد ]  حرف ساکن جسکا ماقبل بھی ساکن ہو؛ جیسے دوست اور گوشت میں 'ت'
"ساکن کے بعد اگر دوسرا حرف پھر ساکن ہو تو اس کا نام موقوف ہے۔"      ( ١٩٦١ء، اردو زبان اور اسالیب، ٣٤٧ )
٢ - [ قالت ]  وہ بچہ جسکا سر وقتِ ولادت حرکت کرکے رُک جائے۔ (ماخوذ: مخزن الجواہر)