فرشی

( فَرْشی )
{ فَرْ + شی }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم فَرْش کے بعد 'ی' بطور لاحقہ نسبت لگانے سے بنا جو اردو میں بطور صفت نیز بطور اسم تحریراً سب سے پہلے ١٨٦٤ء کو "تحقیقاتِ چشتی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ
جمع   : فَرْشِیاں [فَر + شِیاں]
جمع غیر ندائی   : فَرْشِیوں [فَر + شِیوں (و مجہول)]
١ - حقّے کا نچلا حصہ یا پیندا جو بہت چوڑا ہوتا ہے اور اس میں پانی بھرا رہتا ہے۔
"نماز ختم ہوتے ہی نواب صاحب کا ملازم پیچوان لیکر حاضر ہو گیا جسکی فرشی نقرئی تھی۔"      ( ١٩٦٣ء، دلی کی شام، ٢٤٦ )
٢ - دو نالی بندوق کی نالوں کے جوڑ پر لگی ہوئی پٹی جس کے ساتھ نالیں پیوست ہوتی ہے اور جس پر سے مکھی پر نگاہ ملاتے اور نھشانہ باندھتے ہیں، بندوق کا وہ پرزہ جس میں گز رکھتے ہیں (اصطلاحات پیشہ وراں، 89:8)
٣ - کرتے قمیض وغیرہ کی بوتام پَٹی (اصطلاحات پیشہ وراں، 150:2)
"بیدر کی بنی ہوئی فرشیاں اور بٹن، گلبرگہ کے نرم و نازک جوتے . یہی لوگ بناتے تھے۔"      ( ١٩٦٦ء، شہر نگاراں، ٦٤ )
صفت نسبتی ( واحد )
جمع   : فَرْشِیوں [فَر + شِیوں (و مجہول)]
١ - فرش سے متعلق، فرش سے نسبت رکھنے والا، زمینی۔
"اشارہ سے سَفْلیات کو علویات کا رنگ دے دینا فرشی کو عرشی بنا دینا یہ کارنامہ ہے بے مثال اور بے مثل۔"      ( ١٩٤١ء، تمدّنِ اسلام، ٨٩ )
٢ - [ عضویات ]  زیریں حصہ، نچلی سطح۔
"نخاع اور دماغ کے فرشی عقدے ان حصوں کی مثالیں ہیں۔"      ( ١٩٢٧ء، نفسیات عضوی (ترجمہ)، ٢١ )
٣ - زمین پر بسنے والا، زمین پر رہنے والا۔
 ایک ذاتِ پاک بھی کونین میں دل کو عزیز فرشِیوں کے نورِ ایماں عرشیوں کے پیشوا      ( ١٨٧١ء، کلیات تسلیم، ٥ )
  • A kind of huqqa.