خاص

( خاص )
{ خاص }
( عربی )

تفصیلات


خصص  خاص

ثلاثی مجرد و مضاعف کے باب سے اسم فاعل ہے اردو میں بطور اسم صفت استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں استعمال کیا گیا۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع   : خاصان [خا + صان]
جمع غیر ندائی   : خاصوں [خا + صوں (و مجہول)]
١ - غیر معمولی، خصوصی، مخصوص
 اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمیۖ
٢ - پیارا، مقبول، منظور نظر، مقرب
 وہ بھی خاصِ خدا ہے مثل بلال ہے جو دل سے غلام احمد کا      ( ١٨٧٢ء، محامد خاتم النبیین، ٣٥ )
٣ - عمدہ، منتخب، بہتر۔
"مری جو کشمیر کی سرحد پر راولپنڈی کے شمال میں ہے یہ ان مقامات سے خاص ہیں جو صحت بخش خیال کیے . جاتے ہیں"۔      ( ١٨٨٣ء، جغرافیہ گیتی، ١٨:٢ )
٤ - الگ، جدا، مختلف، منفرد۔
"اردو کالہجہ تمام زبانوں سے خاص ہے"      ( ١٩٢٨ء، باتوں کی باتیں، ٤١ )
٥ - عوام الناس کا نقیض، خاص لوگ، شریف آدمی۔
 خلط اجلاف سے رکھتے ہو تو بس چپکے رہو خاص کیا تم کو کہیں گے یہ خبر عام نہ ہو      ( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ١٧٩ )
٦ - صرف، فقط۔
"یہ سب باتیں خاص لکھن میں پائی جاتی ہیں"۔      ( ١٩٣٠ء، بیگموں کا دربار، ٢٤ )
٧ - اصل۔
"نہ صرف قنوج بلکہ بھارت خاص (تا بنارس) پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا"۔      ( ١٩٥٣ء، تاریخِ مسلمانان پاکستان و بھارت، ١٥٥:١ )
٨ - [ قدیم، متروک ]  برابر، مساوی۔
 سوا نیزے کے خاص آفتاب آئے گا دیکھت تاب لوکاں کا سب جائے گا
٩ - ٹھیک، ٹھیٹ۔
 کام بہت خاص کیا ہوں چلتی عمارت راس کیا ہوں      ( ١٦٣٥ء، سب رس )
١٠ - مصاحب، درباری۔
"ایک دن قاسم سفید جوڑا پہن سوار ہو دربار بادشاہی کی طرف آتا تھا رستے میں ایک خاص نے اس کی دستار پر ایک چھیٹا زعفرانی رنگ کا داغ دیکھا"۔      ( ١٨٢٤ء، سید عشرت، ٦٩ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : خاصے [خا + صے]
جمع   : خاصے [خا + صے]
جمع غیر ندائی   : خاصوں [خَا + صوں (و مجہول)]
١ - ایک وضع کا ایک طرف سے چکنا سوتی کپڑا جو ململ سے موٹا اور لٹھے سے پتلا ہوتا ہے۔
 ہم پہنیں لال جوڑا، تم پہنو خاص بنڈی خندی ہو جوتمھاری چھاتی کرے نہ ٹھنڈی      ( ١٨٣٠ء، کلیات، نظیر، ١٥١:٢ )
متعلق فعل
١ - بالخصوص، خاص طور پر، خصوصیت سے، خصوصی
"بعض کھانے پد ماوت خاص اپنے ہاتھ سے بھی اپنے مہمان کے لیے تیار کرتی ہے"۔      ( ١٩٣٩ء، افسانہ پدمنی، ١٦ )
  • particularly
  • peculiarly
  • especially.