بازی

( بازی )
{ با + زی }
( فارسی )

تفصیلات


باختن  بازی

فارسی زبان میں مصدر باختن سے مشتق صیغۂ امر 'باز' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقہ لگنے سے حاصل مصدر 'بازی' بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے سہ ماہی 'اردو' کے حوالے سے "بابا فرید" کے ہاں ١٢٦٥ء میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : بازِیاں [با + زِیاں]
جمع غیر ندائی   : بازِیوں [با + زِیوں (و مجہول)]
١ - کھیل، تماشا، کرتب۔
 لہو و بازی میں ساتھ رہتا تھا ہر گھڑی نرم و گرم سہتا تھا      ( ١٩١١ء،کلیات اسماعیل، ٧٣ )
٢ - تاش گنجفے شطرنج وغیرہ کا کھیل۔
"نہ صرف یہ کہ شطرنج کے ماہر تھے بلکہ فرش پر بیٹھ کر کھیلے جانے والی تمام بازیوں میں دور دور اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔"    ( ١٩٦٢ء، سہ روزہ 'مراد' خیرپور، ٧ جنوری، ٤ )
٣ - گنجفے وغیرہ کے کھیل کا پورا داؤ۔
"تیمور اپنے بیٹے کے ساتھ چوسر کھیل رہا تھا، - حکم دیا کہ قیدی منتظر رہے، ہم اپنی بازی ختم کر لیں۔"    ( ١٩٢٨ء، حیرت، مضامین، ٤٦ )
٤ - [ استعارۃ ] وہ چال جو کھیل وغیرہ میں چلی جائے، دات۔
 اب صفائی رات بھر منت سے ان سے کیجیے بازیاں سب مٹ چکی ہیں دانو ڈالا چاہیے    ( ١٨٦١ء، کلیات اختر، واجد علی شاہ، ٨٩٩ )
٥ - تاش یا گنجفے کے پتے یا شطرنج وغیرہ کی گوٹیں جو بانٹ میں کسی کھلاڑی کو ملیں، بانٹ کے بعد ہمرنگ پتے۔
"سفید بازی چونکہ خانصاحب لیتے تھے لہٰذا پیدل کی جگہ اپنی انگوٹھی رکھ دیتے۔"      ( ١٩٣٢ء، روح ظرافت، ١١٤ )
٦ - شرط، مقابلہ، (اکثر ہار جیت کے ساتھ)۔
"آنحضرت کی سواری کا ایک گھوڑا تھا - ایک دفعہ اس کو آپ نے بازی میں دوڑایا، اس نے بازی جیتی تو آپ کو خاص مسرت ہوئی۔"      ( ١٩١٤ء، سیرۃ النبی، ٢٠٨:٢ )
٧ - وہ چیز جو کوئی شخص شرط میں ہار جائے، زرشرط۔ (نوراللغات، 536:1؛ پلیٹس)
٨ - چال، فریب۔
 قامت فتنہ خیز کو خواہش حشر کس لیے بازی نو کی فکر میں نرگس نیم باز کیوں      ( ١٩٢٧ء، شاد، میخانۂ الہام، ١٩٠ )
٩ - کبوتر کا پلٹیاں کھانا، کبوتر کے پلٹیاں کھانے یا کلا کرنے کا عمل، کبوتر کا گرہ کرنا (بیشتر کابلی کبوتر کے لیے مستعمل)۔ (ماخوذ نوراللغات، 536:1)
١٠ - غلبہ، جیت۔ (فرہنگ آصفیہ، 352:1)
١١ - وہ جدوجہد جس میں یہ یقین نہ ہو کہ نفع ہو گا یا نقصان، امید و بیم کی حالت کا کام۔
 مری بازی کا منصوبہ گیا کب کا پلٹ یارو خبر تم کو بھی ہے کچھ اے مری چالوں سے بیگانو      ( ١٩٠٨ء، مقالات حالی، ٨٥:٢ )
١٢ - [ تصوف ]  توجہ خالص اور جذبہ حقانی، جس کے سبب سے سالک کا دل متغیر نہیں ہوتا اور طلب حق میں استوار اور سرگرم رہتا ہے۔ (مصباح التعرف لارباب التصوف، 54)
١ - بازی ہرنا
کھیل کا بگڑ جانا، کھیل ہارنا۔"بازی کا ہر جانا بالکل یقینی ہے"      ( ١٩٣٢ء، احیائے ملت، ١٤۔ )
٢ - بازی لگنا
بازی لگانا کا فعل لازم ہے۔"میری موجودگی میں بازی نہ لگنے پائی"      ( ١٩٤٤ء، سوانح عمری و سفرنامہ (حیدر)، ٢٤٣۔ )
٣ - بازی لے جانا
سبقت لے جانا، حریف سے بڑھ جانا، مقابل کو شکست دینا۔"وہ تمام لوگوں سے بازی لے گیا"      ( ١٩٤٥ء، الف لیلہ و لیلہ، ٤٣٤:٦۔ )
٤ - بازی مات ہونا
ہار جانا، شکست ہونا، ناکامی ہونا؛ تدبیر کارگر نہ ہونا۔ یہ چال بھی جب سیدھی نہ پڑی رانا کی بازی مات ہوئی      ( ١٩٢٩ء، مطلع انوار، ٩١۔ )
٥ - بازی مارنا
کامیاب ہو جانا، جیت جانا۔"ولیم: پیانو بھی سیکھ لیا ہے! مسز گارڈن: سچ! تب تم نے بازی مار لی، جنی گانے میں ماہر ہے"      ( ١٩٣٣ء، روحانی شادی، ١٥۔ )
٦ - بازی ہاتھ (آنا / رہنا)
کامیابی ہونا، حسب مراد کام ہونا۔"دوپرانے چتھڑے گئے تو گئے بارے بازی تو تو اب صاحب کے ہاتھ رہی"      ( ١٨٩١ء، ایامٰی، ٥٨۔ )
٧ - بازی ہارنا
(کسی کا) شکست کھانا، مغلوب ہو جانا۔ وہ زیب گلو یہ زینت سر یوں بھی یہ ہے اس سے برتر کیا ہار سے بازی ہارا ہے سورج کا سہرا پھولوں کا      ( ١٩٣٦ء، شعاع مہر، ١٨٦۔ )
٨ - بازی کھیلنا
گنجفے یا شطرنج وغیرہ کے کھیل میں مشغول ہونا۔ (ماخوذ: نوراللغات، ٥٣٧:١)
کوئی چیز داءو پر لگانا۔ جو کھیلی عشق کی بازی تو ہارے تخت و تاج نہ تام گنجفہ لے میں ترا غلام ہوا      ( ١٨٦١ء، کلیات اختر، واجد علی شاہ، ٤٠۔ )
کسی کھیل کا پورا داءو ختم کرنا۔ ہزاروں بازیاں دھوکے میں اس دم باز سے کھیلیں جو ہیں جانباز باز آتے نہیں وہ عشق بازی سے      ( ١٨٦١ء، کلیات اختر، واجد علی شاہ، ٨٠٩۔ )
چال چلنا، فریب دینا، تدبیر لڑانا۔"اٹلی اور اسٹریا میں دونوں اپنی اپنی بازی کھیلنا چاہتے تھے"      ( ١٩٢٥ء، تاریخ یورپ جدید، ٥٨٤۔ )
٩ - بازی لڑنا
برابر (یا تقریباً برابر) کا کھیل ہونا۔"بازی لڑی ہوئی ہے یوں ہی انیس بیس کا کھیل ہے"      ( ١٩٧٥ء، سہ ماہی، اردونامہ (بشیر علی کاظمی)، ٢٣٥:٥٠۔ )
١٠ - بازی لگانا
ہار جیت پر کچھ رقم وغیرہ طے کرنا، شرط لگانا۔"مثل ہے کہ ایک خرگوش اور ایک کھچوا باہم بازی لگا کر چلے"      ( ١٨٥٩ء، رسالۂ تعلیم النفس، ٣٠:١ )
١١ - بازی دینا
کھیل خصوصاً شطرنج میں ہار کی صورت نظر آنا، ناکامی کے آثار پیدا ہونا۔"پہلے تو خوب چیف منسٹر کے مخالف شیخوں کے ہاں دوڑ دوڑ کر جاتے تھے اور اب بازی دبتی دیکھی تو لگے بغلیں جھانکنے"      ( ١٩٥٢ء، سہ روزہ مراد، خیرپور، ٧جون، ٢۔ )
١٢ - بازی کرنا
دھوکا دینا۔"جانوروں کی پرستش کرنے والوں سے شیطان نے بازی کی"      ( ١٨٦٦ء، تہذیب الایمان، (ترجمہ)، ٥٩١۔ )
کھیلنا، دل بہلانا، چھیڑ چھاڑ کرنا، مقابلہ کرنا۔"ان کو بیچ کر اس کے واسطے جوز. خریدوں تاکہ ان سے بازی کرے"      ( ١٩٢٤ء، تذکرۃ الاولیا، (ترجمہ)، ٣٣١۔ )
١٣ - بازی کھاتا
مات کھاتا، ہار جانا۔ ہیں جو دلالی پیشگان شریر بازی کھاتا ہے ان سے چرخ اثیر      ( ١٨١٠ء، بحرالمجت، ٥٨۔ )
فریب میں آنا۔ گر کہیے نہ غیر کے دموں میں آءو دیکھو باز آءو تم نہ بازی کھاءو      ( ١٨٠٩ء، جرات، کلیات، ٢٤٥۔ )
١٤ - بازی کھلنا
کھیل میں پتوں اور مہروں کا سامنے آنا، مہرہ چلنے کے لیے خانے کا خالی ہونا؛ حقیقت یا اصلیت کا سمجھ میں آنا۔ شاطر کا چلے مکر نہ یاں حیلہ طرازی تقدیر جو سیدھی ہو تو کھل جاتی ہے بازی      ( ١٩١٢ء، شمیم، مرثیہ،٤۔ )
١٥ - بازی پھرنا
جیتے ہوئے کا ہارنا یا ہارے ہوئے کا جیتنا۔ ہمدم نہیں وہ تیرا کہ اس سے نہ دم سازی دل ہار چکا اب تو کسی طور پھرے بازی      ( ١٧٨٥ء، حسرت، جعفری علی، کلیات، ٣١٢۔ )
١٦ - بازی جیتنا
کھیل میں بامراد ہونا؛ شرط جیتنا، مقابلے میں غالب ہونا۔ جب قول وفا ہار چکا میں تو پھر اب کیا جیتے ہوئے ہیں آپ تو بازی مرے دل کی      ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ٩٣:١۔ )
١٧ - بازی چڑھنا
کامیابی حاصل ہونا، غلبہ پانا، غالب آنا۔ کھیل سمجھے وہ اسے بھی جان پر کھیلے جو ہم ہو گئی کمزور بازی چڑھ کے یہ کیا ہار ہے      ( ١٩٠٥ء، یادگار داغ، ١٧٥۔ )
١٨ - بازی اڑنا
کھیل میں طوالت ہونا؛ ہوتے ہوتے معاملے میں رکاوٹ پیدا ہونا۔"بازی پر تو کسی کا بس نہیں چلتا، اڑی تو اڑی"      ( ١٨٩٩ء، دریائے صادقہ،٧۔ )
١٩ - بازی ابتر ہونا
گنجفے اور تاش کے ایک کھیل کی پہلی بازی میں میر یا تصویر کا نہ ہونا۔ جب نہ ہو شاہ تو ویراں نہ ہو اکبر کیوں ملک گنجفے میں بھی ہے بے شاہ کی بازی ابتر      ( ١٨٩٦ء، تجلیات عشق، اکبر، ٤٧١۔ )
معاملہ بگڑ جانا۔ موسٰی جو کہیں سے آئے پھر کر دیکھا تو یہاں ہے بازی ابتر      ( ١٩٦٠ء، آتش خنداں، ٢٨٥۔ )
  • play
  • sport
  • game
  • trick;  game of chance
  • hazard;  gaming;  stake (at play)
  • wager
  • bet