پری

( پَری )
{ پَری }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی سے اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم گاہے صفت مستعمل ہے سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوانِ حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
جمع   : پَرْیاں [پَر + یاں]
جمع غیر ندائی   : پَرْیوں [پَر + یوں (و مجہول)]
١ - خوبصورت، دل آویز، حسین۔
 موسمِ گل میں چمن کیسا پری خانہ تھا پھول جو تھا وہ کسی محبوب کا پیمانہ تھا      ( ١٨٨٨ء، صنم خانۂ عشق، ٥ )
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : پَرْیاں [پَر + یاں]
جمع غیر ندائی   : پَرْیوں [پَر + یوں (و مجہول)]
١ - ایک قسم کی انسان سے مشابہ نہایت حسِین افسانوی مخلوق، کہا جاتا ہے کہ اس کے پر ہوتے ہیں اس کا مسکن کوہ قاف بتایا جاتا ہے۔
 حسِین ایسا ہے تو انسان کہتے ہیں پری تجھ کو جھمکڑا دیکھ کر تیرا پری کچھ اور کہتی ہے      ( ١٩١٠ء، خوبی، سخن، ٥٣ )
٢ - حسِین عورت، خوبصورت اور بنی ٹھنی عورت۔
"فقیر نے اِس پری کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑا تھا۔"    ( ١٨٠٢ء، باغ و بہار، ٣١ )
٣ - حسِین، معشوق، محبوب۔
 یہ مجال کس کی ہے اے پری کہ ترے جنوں کی دُعا کرے جو کرے بھی کوئی تو وہ کرے جسے اِس کا اہل خدا کرے    ( ١٩٥٠ء، کلیات حسرت موہانی، ٣٤٦ )
٤ - پتنگ جس کی دونوں بغلیں سرخ یا سبز رنگ کے کاغذ کی گلی کی طرح مثلث نما جوڑ کی ہوں جو دیکھنے میں پر لگے ہوئے سے معلوم ہوں۔
"کنکوا بھی ایک سے ایک رنگین بنوا ڈالا، الغن، بگلا، بھیڑیا، پری، جمدھر، چپ۔      ( ١٩٥٤ء، اپنی موج میں، ٣١ )
٥ - [ مجازا ]  شراب
 ناامیدی کا ہوا دل میں قیام شیشہ اچھا ہے پَری اچھی ہے      ( ١٩٢٥ء، نغمہ زار، ١٠٦ )
٦ - ایک قسم کا ریشمی ملائم نرم اور مخمل کا طرح مختلف الالوان ایرانی کپڑا جو لباس اور بجائے قالین امرا میں فرش کا کام دیتا ہے۔ (فرہنگِ آصفیہ، 519:1)
٧ - [ ادبیات ]  حسین، معشوق، محبوب۔
 دل سرگشتہ میرا دیکھ کر یوں وہ پری بولا یہ دل کاہے کو ہے کوئی بگولا ہے بیاباں کا      ( ١٨٧٢ء، مراۃ الغیب، ٤٤ )
  • abstinent
  • abstemious
  • temperate
  • moderate
  • continent
  • sober
  • just;  on who controls his passions;  an abstemious person