اسم حاصل مصدر ( مؤنث - واحد )
١ - ایذا، تکلیف، رنج، دکھ دینا۔
مرض عصیان کا وہ کھوتی ہے آزار تلاش اس میں بھلا پھر کیمیا خاک شفا سے خاک بہتر ہے
( ١٩٣١ء، محب، مراثی، ١٩٩ )
٢ - مرض، بیماری، روگ، عارضہ۔
بظاہر مٹ چکا ہے عشق کا آزار لیکن پھر طبیعت ہر گھڑی رہ رہ کے کیوں غمگین ہوتی ہے
( ١٩٢٧ء، میخانۂ الہام، ٣٨١ )
٣ - جنجال، بکھیڑا، وبال جاں۔
دل کہا کرتے ہیں جس چیز کو دنیا والے ایک آزار ہے ہر وقت مری جاں کے ساتھ
( ١٩٤٨ء، آئینۂ حیرت، ٤ )
٤ - آسیب، بھوت پریت، جن و پری کا اثر یا سایہ۔
یقیں مرے مرنے کا آیا نہ ان کو کہا ہو گیا ہے کچھ آزار دیکھو
( ١٨١٤ء، مہجور(فرہنگ آصفیہ، ١٥٦:١) )
٥ - خرابی، بگاڑ، جیسے : خدا جانے اس گھڑی میں کیا آزار ہے کہ چلتے چلتے رک جاتی ہے۔
١ - آزار پہنچانا
دکھ دینا، ستانا۔"شمرانہ و غاشیہ ملعونہ ملکۂ صبح روشن گہر کی شکل سے مجھ کو انواع اقسام کے آزار پہونچاتی تھیں۔"
( ١٨٩١ء، بوستان خیال، ٨٠:٩ )
٢ - آزار کھانا
مصیبت اٹھانا، تکلیف سہنا، دکھ جھیلنا۔ توں تو صحی ہے لشکری کر نفیس گھوڑا سارتوں ہوے نرم نہ تجھ او چڑے بس کھائے گا آزار توں
( ١٦٢٤ء، سید شہباز حسینی (دکنی ادب کی تاریخ، ٢٦) )
٣ - آزار اٹھانا
صدمہ برداشت کرنا، دکھ درد جھیلنا، تکلیف سہنا۔ کیا کیا نہ رہ شام میں آزار اٹھایا روئی کبھی بابا کو تو خولی نے ستایا
( ١٩١٢ء، شمیم مرثیہ سوز خوانی (قلمی نسخہ)، ٩ )
٤ - آزار آنا
تکلیف یا رنج پہنچانا، مصیبت نازل ہونا۔ دوستو دل کہیں زنہار نہ آنے پائے دل کے ہاتھوں کوئی آزار نہ آنے پائے
( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٢٦٣ )
(کسی عمل وغیرہ میں) خلل پڑنا، کسی بات یا کام پر آنچ آنا۔ دے جام در پہ جم گئے میخوار ساقیا لیکن وضو پہ آئے نہ آزار ساقیا
( ١٨٩٣ء، ریاض شمیم، ٤:١ )
٥ - آزار پانا
نہ کھایا تھا کبھی خون جگر ہم نے مگر کھایا نہ پایا تھا کبھی آزار الفت میں مگر پایا
( ١٩٠٥ء، داغ (نوراللغات، ٩٥:١) )
٦ - آزار پڑنا
مرض عارض ہونا، روگ لگنا۔ پڑا وہ بے کلی کا دِل میں آزار نظر میں گل چمن کے صورت خار
( ١٨٦٢ء، طلسم شایاں، ٦٧ )