اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - چاندی یا سونے، یا کسی اور دھات کے تاروں کی کڑیوں سے بنی ہوئی حلقہ دار حلقہ لڑی۔
لاتے لاتے کام میں الفت لائے گی زنجیروں کو بڑتھے بڑھتے زلفیں تیری طوق کم ہو جائیں گی
( ١٩٣٦ء، تجلائے شہادت ثاقب، ١٣٦ )
٢ - دروازے کی کنڈی۔
کھولی زنجیر اس نے اندر کی پر نہ دروازے نے اجازت دی
( ١٩٣٦ء، جگ بیتی، ٢٦ )
٣ - [ مجازا ] سلسلہ وار، لگاتار۔
"اس کی چھوٹی سی کہانی میں اتنا پھیلاؤ آتا ہے کہ وہ بیک وقت معاشرتی اقتصادی تاریخی اور سیاسی کڑیوں کی ایک زنجیر میں گندھا ہوا پاتا ہے"
( ١٩٨٧ء، کچھ نئے اور پرانے افسانہ نگار، ١٤٣ )
٤ - ایک مالا جو عورتیں گلے میں بہنتی ہیں، لڑی۔
"سونے کی نہایت لمبی چوڑی زنجیر.گلے میں پہننے کے بعد بل دے کر ہاتھ کے اندر سے بغل کے نیچے سے نکال دیتے ہیں"
( ١٩٧٩ء، عورت اور اردو زبان، ١٧١ )
٥ - [ مجازا ] رکاوٹ، مانع۔
اپنی دانست میں جس دام سے آزاد تھا میں وہی اس پاؤں کی زنجیر ہے معلوم نہ تھا
( ١٩٨١ء، تشنگی کا سفر، ٧٤ )
٦ - [ کیمیا ] دو یا دو سے زیادہ ایٹموں یا گروہوں کی اس طرح باہم دگر پیوستگی کہ وجود میں آنے والے سالمے، ایون یا اصلیے کی شکل زنجیر سے مشابہ ہو۔
"یہ کاربن کے ایٹم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کو ویلنٹ بانڈ کے ذریعے متحد ہو کر ایک زنجیر یا حلقہ بنا لیتے ہیں"
( ١٩٨٥ء، نامیاتی کیمیا، ٨ )
٧ - بانس کو کبھی جریب اور کبھی طناب اور کبھی زنجیر کہتے ہیں، یہ پیمانہ عموماً 40 گز ہوتا ہے۔
"جریب، طناب، زنجیر، بانس، گز سے بڑے پیمانہ میں داخل ہے"
( ١٩٤٩ء، فرہنگ عثمانیہ، ٢٥٧ )
٨ - فل کے ساتھ تعداد کے واسطے مخصوص۔
ہاتھی ٣٠ زنجیر، گھوڑے ١٠ ہزار۔
( ١٩٣٢ء، تخت طاؤس، ١٥٤ )
٩ - [ مجازا ] تسلسل۔
"بارہ مختلف یک جسمی زنجیروں کی توقع کرنا چاہیے کیونکہ ایسے یک جسموں میں ہر ایک سیٹ کے ١٢ میں کا ایک کوئی جسم ضائع ہو جاتا ہے"
( ١٩٧١ء، جینیات، ٣٣٢ )
١٠ - کوئی شے جو جکڑ کر رکھ دے اور آزادانہ نقل و حرکت سے روکے، جکڑ بندی۔
"یہ ہندوستانیوں کی زنجیر غلامی سے آزاد ہونے کی آخری اور ناکام کوشش تھی"
( ١٩٨٧ء، قوی زبان، کراچی، اگست، ٦٠ )