آفتاب

( آفْتاب )
{ آف + تاب }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں 'آف' اور 'تاب' سے مرکب ہے۔ 'تاب' 'تابیدن' مصدر سے اسم فاعل ہے یعنی 'چمکنے والا'۔ اردو زبان میں اصلی حالت اور اصلی معنی میں مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٥٨٢ء میں جانم کے "کلمۃ الحقائق" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم معرفہ ( مذکر - واحد )
جمع ندائی   : آفْتابو [آف + تابو (واؤ مجہول)]
جمع غیر ندائی   : آفْتابوں [آف + تا + بوں (واؤ مجہول)]
١ - ایک روشن گولا جو ہر صبح آسمان پر مشرق سے نکلتا اور شام کو مغرب میں ڈوبتا دکھائی دیتا ہے، نظام شمسی کا مرکزی کرہ، سورج۔
"اتنا وقت نہیں رہا تھا کہ غروب آفتاب سے پہلے تجہیز و تکفین سے فراغت ہو سکے۔"      ( ١٩١٤ء، سیرۃ النبی، ١٨٢:٢ )
٢ - سورج کی روشنی، دھوپ۔
 دور خزاں تھا باغ رسالت مآب میں مرجھا رہے تھے سب گل تر آفتاب میں      ( ١٩١٢ء، شمیم، مرثیہ، ١٢ )
٣ - شراب، شراب کا پیالہ۔
 صبح کے وقت دور میں جام شراب ناب ہے ایک ادھر آفتاب ہے ایک ادھر آفتاب ہے      ( ١٩٣٤ء، اعجاز نوح، ٢٧٩ )
٤ - گنجفے کے چھٹے رنگ کا پہلا پتا جس سے کھیل شروع ہوتا ہے، تاش کے کھیل میں حکم کا اکا۔
"حکم کے پتوں میں چار مورتیں ہوتی ہیں، حکم کا اکا آفتاب کہلاتا ہے۔"      ( ١٩١٣ء، انتخاب توحید، ٩٢ )
٥ - [ مجازا ]  حسن و جمال یا عمدہ صفات میں مشہور، کامل، بلند مرتبہ (شخص)۔
 تعریف کس زبان سے کریں مغبچوں کی ہم اے کیف آفتاب ہے یہ خاندان تمام      ( ١٨٦٠ء، کیف، آئینہ ناظرین، ١١٣ )
٦ - [ مجازا ]  حسین معشوق۔
 ہچکی لگی ہے دھیان میں اک آفتاب کے کیونکر گلے سے گھونٹ اوتاریں شراب کے      ( ١٨٥٤ء، دیوان صبا، غنچہ آرزو، ١٧١ )
٧ - [ تصوف ]  تجلی روح جو سالک کے دل پر وارد ہو، بعض کے نزدیک روح جو بدن میں مثل آفتاب ہے اور نفس بمنزلہ ماہتاب۔ (مصباح التعرف لارباب التصوف، 41)
  • lit
  • "sunshine"
  • the sun