خالص

( خالِص )
{ خا + لِص }
( عربی )

تفصیلات


خلص  خالِص

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مجرد کے باب سے اسم فاعل ہے۔ اردو میں بطور صفت مستعمل ہے۔ گاہے متعلق فعل بھی استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٠٧ء کو "کلیات ولی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - جس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہ ہو، کھرا، بے میل۔
"ختم ہونے والے مالی سال کے دوران ١٢ کروڑ روپے کا خالص منافع ہوا ہے۔"    ( ١٩٨٦ء، جنگ، کراچی، ٢٠ جنوری، ١٠ )
٢ - خصوصیت لئے ہوئے۔
"اس (جمیل ملک) کا بات کرنے کا انداز خالص اپنا ہے۔"    ( ١٩٧٥ء، پردۂ سخن، ١٥ )
٣ - اصلاً (مقام یا خاندان کے اعتبار سے)۔
"اگرچہ وہ خالص دہلوی تھے اور دلی کے پرستار مگر ان میں صوبے دارانہ تعصب نام کو نہ تھا۔"      ( ١٩٨٣ء، نایاب ہیں ہم، ٢٢ )
٤ - پاک و صاف (لوثِ دنیاوی یا اغراضِ ذاتی سے)۔
"اہل فارس جو زیادہ تر مہذب و شائستہ تھے، ان کا عقیدہ بھی صاف اور خالص ہو گیا۔"      ( ١٩١٢ء، تحقیق الجہاد (مقدمہ)، ٨٩ )
٥ - مخلص، بے غرض، بے لوث، پرخلوص۔
"خدا ایمان والوں کو پاک اور خالص کرے۔"      ( ١٩٣٢ء، سیرۃ النبی، ٧٧٠:٤ )
متعلق فعل
١ - محض، صرف۔
"خالص واقعیت پسندی سے انہوں نے اپنے تجربے اور معلومات میں ایک جان ڈال دی۔"      ( ١٩٤١ء، پیاری زمین (ترجمہ)، ٢ )