روا

( رَوا )
{ رَوا }
( فارسی )

تفصیلات


رَفْتَن  رَوا

فارسی میں 'رفتن' مصدر سے فعل امر 'رُو' کے ساتھ 'ا' بطور لاحقہ فاعلی لگا کر مرکب کیا گیا ہے اردو میں بطور اسم صفت مستعمل ہے سب سے پہلے ١٦٣٥ء میں "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - جس بات میں کوئی مذہبی اخلاقی یا قانونی حرج نہ ہو، جائز، مباح۔
 ہوتا ہے روا سب کچھ اب جنگ و محبت میں ہر وعدہ و پیماں سے تم صاف مُکر جانا      ( ١٩٨٦ء، غارِ ماہ، ٨٤ )
٢ - درست، بجا، مناسب۔
 ناآشنائے درد کو شکوہ سے کیا غرض تم کو شکایتِ غم فرقت رواسہی      ( ١٩٤٧ء، میں ساز ڈھونڈتی رہی، ٣٦ )
٣ - جاری، رواں۔
 کر دیا میں نے رگوں میں خوں روا ٹھنڈ سے شل ہو گئے تھے دست و پا      ( ١٩١١ء، کلیات اسماعیل، ١٩٧ )
٤ - پورا، تکمیل یافتہ (کام، حاجت وغیرہ)۔ مکمل۔
 اس قول کو میرے مانے کا جو صاحبِ دل ہے دانا ہے کہتے ہیں جسے شاہنشاہی حاجت کا روا ہو جانا ہے      ( ١٩٢٠ء، روحِ ادب، ٢٨ )
١ - روا جاننا،سمجھنا
مباح اور جائز سمجھنا، حلال سمجھنا، غیر ممنوع جاننا۔
٢ - روا رکھنا
جائز سمجھ کر جاری رکھنا، جائز سمجھنا۔"میں یہاں ایک غلطی کا تفصل سے ازالہ کرنا چاہتا ہوں جو پاکستان میں بعض اہل قلم بھی روا رکھ جاتے ہیں۔"      ( ١٩٨٢ء، دنیا کا قدیم ترین ادب،٣٣:١ )
برداشت کرنا، قبول کرنا، بازپُرس نہ کرنا۔"شعر میں جو چیز رد کی جاتی ہے مرثیے میں روا رکھی جاتی ہے۔"      ( ١٩٧٥ء، تاریخ ادبِ اردو، ٦٦٤:٢،٢ )
  • lawful
  • right;  reasonable;  admissible;  approved
  • tolerated;  worthy
  • proper
  • right